باجوہ صاحب مولانا کے اکھاڑے میں نہ آنا

مولانا کی سیاسی اکھاڑے کی تیاری، دنگل کی تیاری۔ سیاسی جنگ کے طبل بجانے کا اعلان۔ فیصلہ کن سیاسی لڑائی چاہتے ہیں۔

31 اکتوبر کی اس تصویر میں جمیعت علمائے اسلام ف کے کارکان آزادی مارچ  کے ساتھ پشاور سے اسلام آباد کے راستے میں (اے ایف پی)

ہمارے دیہات میں پہلوانوں کے دنگل کے اپنے رسم و رواج تھے۔ بڑی لڑائی کے لیے مقرر دن سے کئی ماہ قبل تیاری شروع ہوتی۔

استاد پہلوان کے اکھاڑے کے پہلوان گاؤں بھر سے چندہ جمع کرتے۔ اکھاڑے کی تیاری شروع ہوتی۔ پرانی مٹی کھودی جاتی، نئی مٹی ڈالی جاتی، گارہ بنایا جاتا، اکھاڑے کی چونے سے لائنیں کھینچی جاتیں۔

لڑائی کے مقررہ دن سے قبل پورے گاؤں میں چرچا ہوتا۔ مجمع اکٹھا ہوتا۔ ڈھول تاشوں کا انتظام۔ استاد پہلوان بیچ اکھاڑے میں براجمان ہوتا۔

مجھے ان دنوں مولانا کا دھرنا اپنے گاؤں کے دنگل کے اکھاڑے کی طرح لگتا ہے اور مولانا، استاد پہلوان۔

سیاسی دنگل کا اکھاڑہ تیار۔ خلقت جمع۔ استاد پہلوان یعنی مولانا کا جنگ کے طبل کا اعلان۔ مولانا کی سیاسی دنگل کی تیاری۔ لگ بھگ سال بھر کی تیاری۔ لڑائی کے لیے سیاسی فریق، عمران خان، جن کے ساتھ مولانا کی ذاتی سیاسی لڑائی ہے۔

مولانا 2013 کے انتخابات، پھر 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے خلاف شکست کو ’فکسڈ‘ سمجھتے ہیں۔ تکنیکی بنیادوں پر ناک آؤٹ ہونے پر ایمپائر یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

گلہ سمجھ لیں، شکوہ سمجھ لیں یا پھر لڑائی۔ مولانا اسٹیبلشمنٹ سے ازالہ چاہتے ہیں۔ گویا عمران خان کو رنگ سے اتار کر باہر پھنکوانا چاہتے ہیں۔

مولانا کی سیاسی اکھاڑے کی تیاری، دنگل کی تیاری۔ سیاسی جنگ کے طبل بجانے کا اعلان۔ فیصلہ کن سیاسی لڑائی چاہتے ہیں۔

مولانا نہ صرف مائنس ون چاہتے ہیں بلکہ خطرناک اشارے مائنس ٹو کے بھی دیتے ہیں۔

مولانا کے اکھاڑے کے اردگرد ان کے دسیوں ہزار چیلوں کا گھیرا ہے۔

داڑھیوں، پگڑیوں کے ساتھ براجمان ہیں۔ مولانا یعنی امیر کے حکم پر اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

ساتھ باچا خان کے سرخ ٹوپی والے اے این پی کے پشتون قوم پرست ہیں۔ وہ بھی مولانا کی طرح ایمپائر سے نالاں ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ انہیں سیاسی دھارے سے دور رکھا گیا ہے۔

علامتی طور پر مولانا کے ساتھ شریف خاندان کے ن لیگ اور پی پی پی کے رہنما بھی ہیں۔

سمجھوتوں اور مجبوریوں میں گھری ہوئی جماعتیں مولانا کے چیلوں کے بڑے مجمعے سے دور بھی نہیں رہ سکتیں اور مولانا کی لڑائی کے اکھاڑے میں کودنا بھی نہیں چاہتیں۔

ن لیگ جو فی الوقت ش لیگ یعنی شہباز شریف لیگ لگ رہی ہے۔ شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی ن لیگ کی سیاست پر غالب نظر آتی ہے۔

شش وپنج میں مبتلا، کمر درد کو زائل کرنے کی سیاسی کڑوی گولیاں کھا کر مولانا کے دھرنے میں پہنچے۔ حکومت کے خلاف خوب بولے، لیکن اسٹیبلشمنٹ سے گلہ کرنے سے گریز کیا۔

شہباز شریف چاہتے ہیں کہ مولانا کے دھرنے کے سیاسی شعلے صرف وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچیں نہ کہ پنڈی میں ان شعلوں کی شدت محسوس ہو۔

مولانا اور ان کے نظریاتی حواری شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسیوں کی تعریف پشتو کی ایک روایت میں پیوست دیکھتے ہیں۔ ’انکو بندوق بھی دو تو وہ دھوپ میں رکھ کر کہیں گے ’تپسی پھر ٹھس کر سی‘ یعنی گرم ہو جائے گی تو پھر خود فائر کر دے گی۔‘

شہباز شریف مولانا کے عزائم کے نتائج سے مستفید بھی ہونا چاہتے ہیں اور خطرات سے محفوظ بھی رہنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا پیپلز پارٹی سے ناراض نہیں۔ بلاول کی دھواں دار تقریر، ان کی اکھاڑے میں موجودگی سے سیاسی فائدہ ہی ہے۔

زرداری سے مولانا کی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ دونوں سیاسی شطرنج کے کھلاڑی ہیں۔ رسک لینا جانتے ہیں۔ سیاسی جوا کھیلنا جانتے ہیں۔

مولانا، پیپلز پارٹی کی فی الوقت ہچکچاہٹ سے نالاں نہیں۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ مزاحمت کی ہے۔ بقول مولانا کے قریبی ذرائع پیپلز پارٹی کی صورت حال ایسے ہی ہے جیسے کوئی ’سانپ کا ڈسا، رسی سے بھی ڈرتا ہے۔‘

مولانا کچھ برس پہلے زرادی اور نواز شریف کے درمیان سیاسی رابطوں کے پل کا کردار ادا کر رہے تھے۔ لیکن جب زرداری نے پشاور میں اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا بیان دیا تھا جس سے تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔

اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے جب زرداری مخالف اسٹیبلشمنٹ ناراضی کا درجہ حرارت ناپا تو اگلے روز وزیراعظم ہاؤس میں ظہرانے پر زرداری سے طے شدہ دعوت کو منسوخ کر دیا۔ زرداری نے مولانا سے گلہ کیا ’میں نہ کہتا تھا، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔۔‘ کچھ الفاظ اشاعت کے لیے نہیں ہوتے۔

خیر مولانا کو فی الوقت دونوں بڑی جماعتوں یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی علامتی حمایت ہی چاہیے۔ مجمع کی تعداد کی مولانا کو فکر نہیں۔

مولانا اپنے مذہبی چیلوں کے جتھوں میں سیاسی جھنڈے اور سیاسی رہنما بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

خواتین کی شمولیت اور کوئی رنگ برنگ ماحول تو ڈال نہیں سکتے۔ دھرنے کے مجمع کو نظریاتی طور پر مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر اکھٹا کیا ہے۔

عمران خان سپورٹس اور سیاسی سلیبٹریٹی ہیں اور مولانا مذہبی سلیبٹریٹی ہیں۔

سیاسی کار کن تنقیدی سوچ رکھتا ہے اور سیاسی منطق تلاش کرتا ہے۔ جبکہ مذہبی جماعت کا کار کن مذہبی جنونیت کے عشق میں سوار اپنے رہنما یا امیر کے حکم کو مذہب کا حکم سمجھتا ہے۔ خطرناک رجحان ہے۔

مولانا نے استاد پہلوان کی طرح اپنے اکھاڑے میں چیلوں کا مجمع اکٹھا کر رکھا ہے۔ ارد گرد مذہبی انتہا پسندی کی باڑ خار دار تاروں سے تعمیر کی ہے۔

دھرنے میں احمدی فرقے، یہودی لابی کے ایجنٹ کے الزامات بھرے نعرے ہیں۔

گویا مولانا کا سیاسی، جمہوری بیانیہ ایک طرف اور دوسری طرف اپنے چیلوں کے لیے انتہا پسندی بھرا پروپیگنڈا۔ مجمع میں ہیجان بھرا ہے۔ مولانا کے سیاسی اکھاڑے یعنی دھرنے کے ادر گرد آگ کا الاؤ ہے۔ شعلوں کے بھڑکنے کے خطرات۔

حکومتی خیمے میں ہلچل، بوکھلاہٹ، سیاسی لچک کا فقدان۔ حکومت اپوزیشن کی سنگین محاز آرائی۔ مولانا حکومت سے مذاکرات نہیں چاہتے۔ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ نازک مرحلے میں، تصادم کا خطرہ۔ سیاست بند گلی میں۔

اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی اکھاڑے میں گھسیٹنے کی کوشش۔ یہی پیغام ہو سکتا ہے کہ باجوہ صاحب مولانا کے سیاسی اکھاڑے میں نہ آنا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ