’نوعمری میں آسمانوں کی بلندی چھونے کا عزم کیا تھا‘

نمیرا سلیم دنیا کے انتہائی شمالی اور جنوبی حصوں یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی کا سفر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بھی ہیں۔

نمیرا سلیم پہلی پاکستانی خلا باز ہیں جن کا شوقِ سیاحت انہیں اب خلا میں لے جانے کی تیاری کروا رہا ہے۔

اس سے پہلے نمیرا سلیم دنیا کے انتہائی شمالی اور جنوبی حصوں یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی کا سفر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ حال ہی میں وہ اپالو 11 کی 50 سالہ تقریبات کے سلسلے میں پاکستان آئیں تو ہم نے ان سے ملاقات کی اور ان سے انہی کی زندگی پر سوالات کیے۔

نیمرا سلیم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئی تھیں، ابتدائی تعلیم یعنی انٹرمیڈیٹ تک پاکستان میں پڑھنے کے بعد امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی سے بیچلرز اور پھر ماسٹرز کولمبیا یونیویسٹی سے کیا۔

1992 میں پاکستان واپس آکر انہوں نے اقوام متحدہ سے منسلک طلبہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم آئزیک کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کے والدین دبئی میں رہتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ ہی وقت گزارنے کے بعد وہ مناکو میں جا بسیں۔ مناکو فرانس کے جنوب میں ایک بہت ہی چھوٹا سا آزاد ملک ہے۔

مناکو منتقل ہونے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ انہیں امن، سکون اور تنہائی کے لیے اس ملک کا انتخاب کیا۔ اس دوران نمیرا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر شاعری بھی کی۔

نمیرا سلیم نے بتایا کہ انہیں خلا میں جانے کا شوق تو بچپن سے تھا مگر مناکو میں رہنے کے دوران انہیں جب معلوم ہوا کہ ایک نجی خلائی جہاز بن رہا ہے اور اس کے ذریعے خلا نوردی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جسے خلائی سیاحت یا ’سپیس ٹورازم‘ کا نام دیا جا رہا ہے تو انہوں نے اس میں شمولیت اختیار کرلی۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب ورجِن گروپ کے مالک رچرڈ برینسن نے ’مجھے دیکھا تو انہوں نے مجھے دنیا کے سامنے پیش کیا بطور پہلی ایشائی خاتون کے جو خلا میں جارہی ہے۔ رچرڈ برینسن نے اس کے ذریعے ابو ظہبی سے38 کروڑ ڈالر جمع کیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نمیرا سلیم نے کہا کہ اب دنیا اور اس کا خلا کے بارے میں نظریہ بدل چکا ہے۔ اب خلا کا سفر صرف اور صرف حکومتوں کی حد تک محدود نہیں ہے کہ صرف حکومت کے پروگرام ہی ہوں گے، اب خلا سب کے لیے کھُل چکی ہے چاہے وہ سائنسدان ہوں یا طالبِ علم۔

یہ نجی صنعت ان تمام افراد کے لیے ہے جنہوں نے کبھی خلا میں جانے کا خواب دیکھا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے جو پروگرام بنائے جاتے ہیں وہ بہت محدود لوگوں کے لیے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تو فوجی پائلٹ بھیجے جاتے ہیں۔

نمیرا سلیم نے بتایا کہ اس کام کا آغاز تو ہو گیا تھا مگر ابھی اس صنعت کو تیار ہونے میں کافی وقت درکار ہے تو ’اسی دوران میں نے سوچا کہ کیونکہ نا دنیا کہ دور افتادہ مقامات کا سفر کیا جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب انہیں پہلی پاکستانی خلا نورد یا ایسٹرناٹ کا خطاب ملا تو میڈیا کی توجہ بہت زیادہ تھی اس لیے اس توجہ کو مثبت سمت میں قائم رکھنے کے لیے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے سفر کا پلان بنایا کیونکہ اس سے پہلے کوئی پاکستانی وہاں گیا نہیں تھا۔

نمیرا نے مزید بتایا کہ ان مقامات پر جاکر انہیں دوران سفر جو لوگ ملے انہوں نے کہا کہ آپ کو دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ پر بھی جانا چاہیے اور اسی دوران ماؤنٹ ایورسٹ سے پہلی سکائی ڈائیونگ کا اعلان بھی ہوا تو وہ اس جانب مائل ہوگئیں اور اکتوبر 2008 میں انہوں نے بحیثیت پہلی ایشائی خاتون وہاں سے چھلانگ لگائی جس کی اونچائی تقریباً 29500 فٹ تھی۔

نمیرا سلیم نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ خلا میں جانے سے پہلے وہ دنیا کے دور افتادہ مقامات دیکھ لیں۔

اپنے خلا کے سفر میں تاخیر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ خلا کی نجکاری کا زمانہ آچکا ہے اس سلسلے میں پہلی فلائٹ کی تیاری کی جارہی ہے جو مکمل طور پر نجی ملکیت ہوگی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مرحلہ حفاظتی اقدامات کا ہے جو سب سے مشکل بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی خلا کی سیاحت کی صنعت زیر تعمیر ہے اور اس لیے اس میں جلد بازی نہیں کی جارہی اور 2006 سے اب تک اسی لیے انتظار کیا جا رہا ہے کیوں کہ ہم مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں تاکہ خلا کی سیاحت کے ساتھ ساتھ تحقیق اور خلا کے زمین کے لیے پُرامن استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔

اس سوال پر کے خلا کی سیاحت کا خرچہ کتنا آئے گا نمیرا سلیم نے بتایا کہ ورجن گلیکٹک کا ٹکٹ جب انہوں نے لیا تھا تو اس وقت وہ دو لاکھ امریکی ڈالرز کا تھا۔ اب اس کی قیمت بڑھ کر ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر ہوچکی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت کم ہوجائے گی، جیسے لندن سے نیویارک پہلی پرواز کے ٹکٹ کی قیمت بہت زیادہ تھی مگر اب وہ بہت کم ہوچکی ہے۔ بالکل اسی طرح خلا کی سیاحت میں یہ بات شامل ہے کہ اس کی قیمت آنے والے سالوں میں گرے گی اور شاید چند ہزار ڈالرز تک رہ جائے۔ مگر جو بھی ہے یہ ایک پیسے وصول تجربہ ہے۔

خلا کے سفر میں آخر ہوگا کیا وہاں جاکر کریں گے کیا، اس بارے میں نمیرا سلیم نے بتایا کہ یہ فلائٹ زمین کے مدار سے نکلنے تک محدود ہوں گی جس کے بعد کشش ثقل کے بنا تقریباً پانچ منٹ کا وقت ملے گا اور پھر یہ واپس آ جائے گی۔ یہ پورا سفر دو سے تین گھنٹے پر محیط ہوگا۔

خلا میں جانے کے لیے کیا کسی خاص قسم کی تربیت کی ضرورت ہوگی کیونکہ فلموں میں تو یہی دیکھا گیا ہے، اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے نمیرا سلیم نے کہا کہ ورجن گلیکٹک کی جانب سے تیار کی جانے والی اس خلائی پرواز کی تربیت بہت آسان ہے اور کوئی بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اس میں ایک ’مدر شپ‘ ہے جو 50 ہزار فُٹ کی بلندی پر لے جاکر خلائی جہاز کو وہاں سے لانچ کرے گی اس وجہ سے افقی نہیں بلکہ عمودی انداز میں اڑان بھرے گی جو بہت آسان ہے۔

آخر میں ان سے جب پوچھا کہ آخر قطب شمالی اور قطب جنوبی کا سفر کیسے کرتے ہیں، جس پر انہوں نے بتایا کہ قطب شمالی جانے کے لیے ناروے کی ذریعے جاتے ہیں جہاں سے وہ روسی ٹیم کے ساتھ گئی تھیں جہاں پہلے ایک آئس کیمپ ہے اور وہ وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے گئی تھیں۔

قطب جنوبی کے سفر کا انہوں نے بتایا کہ وہ چلی کے شہر پونٹ ارینس سے گئی تھیں اور وہاں بھی ایک روسی ٹیم تھی جس کے بعد وہ قطب جنوبی پہنچیں جہاں پر ایک امریکی تحقیقی ادارہ بھی بنا ہوا ہے۔

نمیرا سلیم مناکو میں 15 سال تک پاکستان کی اعزازی قونصل بھی رہی ہیں، انہوں نے وہاں پاکستان کا قونصل خانہ بھی قائم کیا تھا تاہم انہوں نے بتایا کہ 2013 میں میاں نواز شریف کی حکومت نے جب تمام اعزازی قونصلر ہٹائے تھے تو اس وقت انہیں بھی ہٹا دیا گیا تھا جس سے انہیں بہت دکھ ہوا تھا کیونکہ اس کی کوئی تُک نہیں تھی۔ تاہم انہوں نے اس کے بعد دوبارہ درخواست نہیں دی۔

نمیرا سلیم نے بتایا کہ انہوں نے اب تک پاکستان کی شہریت ہی رکھی ہوئی ہے اور وہ ساری دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ پر ہی سفر کرتی ہیں۔

پاکستان آمد کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ سے اپالو 11 کی 50 سالہ تقریبات کے سلسلے میں آئی ہیں اور انہیں اومیگا واچ کی جانب سے بلایا گیا ہے کیونکہ چاند پر جو پہلی گھڑی پہنی گئی تھی وہ اومیگا سپیڈ ماسٹر تھی جسے بز آلڈرن نے پہنا تھا جو آرم اسٹرانگ کے چند منٹ بعد چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے انسان تھے اور اسی سلسلے میں ان کا پاکستان آنا ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین