عمران خان، فضل الرحمٰن اور ناتمام امیدیں!

امیدوں کا ایک طوفان ہے جو اس تحریک سے جوڑا جا رہا ہے اور کیا امیدیں پوری ہوتی ہیں۔ حقیقت میں تحریک انصاف سے وابستہ امیدیں ہی تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بن رہی ہیں۔

’پہلی بار آپ نے مجھے امید دلائی میں انتظار میں رہا اور لگتا ہے یہی امید آج میری جان لے کر چھوڑے گی‘ (شٹرسٹاک)

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک سرد ملک کا بادشاہ شدید سردی میں محل میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک بوڑھے چوبدار پر نظر پڑی۔ اس شدید موسم میں وہ باریک کپڑے پہنے پہرہ دے رہا تھا۔ بادشاہ گرم لباس زیب تن کر کے بھی سردی محسوس کر رہا تھا۔ بادشاہ رکا اور بزرگ چوبدار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’تم رکو میں تمہارے لیے ابھی گرم کپڑوں کا بندوبست کرتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر بادشاہ محل کے اندر چلا گیا۔ گرم خواب گاہ میں پہنچ کر بادشاہ چوبدار سے کیا گیا وعدہ بھول گیا۔ کچھ وقت کے لیے آپ بھی بھول جائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ پر آتے ہیں۔ گھومتے گھومتے ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر مراد سے ملاقات ہوئی موصوف پی ٹی آئی کے شدید چاہنے والوں میں سے تھے۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں ساتھیوں سمیت شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے جو قوانین متعارف کرائے ہیں وہ شعبہ صحت کی تباہی ہے۔ میں نے پوچھا اب کیا ارادے ہیں تو اس نے انکشاف کیا کہ پنجاب کے ہزاروں ڈاکٹر روزانہ آن لائن ملک سے باہر جانے کی دن رات کوششوں میں لگے ہیں اور پی ایم ڈی سی خاتمے کے بعد تو اس پیشے کے معیار ہی ختم کر دیے گئے۔ میں نے پوچھا مولانا صاحب کے مارچ میں کیسے؟ فرمانے لگے کفارہ ادا نہیں کروں کیا؟

اسلام آباد آزادی مارچ میں شریک خیبر پختونخوا کے جمیل خان سے ملاقات ہوئی موصوف کا کہنا تھا کہ اس نے تحریک انصاف کو ووٹ بھی نہیں دیا تھا کیونکہ اس وقت وہ دبئی میں ٹرانسپورٹ کے کاوربار سے وابستہ تھے۔ جب انتخابات ہوئے تو دبئی پشتون حجرے کے چار دوستوں نے مشورہ کیا کہ اب تبدیلی آ چکی ہے اور کاروبار کرنے کا نادر موقع ہے۔ پھر یہ کہ دیار غیر میں کاروبار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں نہ وطن جا کر اپنے ملک میں کاروبار کریں۔ بس پھر کیا تھا یار لوگوں نے سامان باندھا اور نکل پڑے اپنے ملک۔ اور اب یہ حال ہے کہ جو جمع پونجی تھی وہ کھا پی کر گھر والوں کے سننے کہ چھ ماہ بعد دسمبر میں دبئی واپس جانے کا ارادہ ہے۔ ٹریول ایجنٹ سے ملنے اسلام آباد آئے تو سوچا چلو مارچ بھی دیکھ لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاصی گہما گہمی تھی۔ آزادی مارچ میں گھومتے گھومتے چینی مسلمان عبدالولی سے ملاقات ہوئی جن کی والدہ چینی جبکہ والد بنوں، خیبر پختونخوا سے ہیں۔ عبدالولی خیبر میڈیکل کالج میں میڈیکل کے تیسرے سال میں ہیں۔ والدین البتہ دبئی میں مقیم ہیں۔ میں نے پوچھا یہاں کیسے؟ کہنے لگے مارچ دیکھنے آیا ہوں۔ میں نے پوچھا مارچ سے کیا توقع ہے تو مولانا امان اللہ حقانی کی طرف دیکھ کر کہا، کالج فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، مہنگائی نے برا حال کیا ہے، نئی حکومت شاید مہنگائی کم کر دے۔

مولانا کے ایک چاہنے والے نے آواز لگائی چھ ماہ صرف چھ ماہ میں مولانا صاحب پاکستان کے مسائلِ حل کر دیں گے اور تو اور مسلم لیگ کے قائد نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے۔

مولانا صاحب اور اپوزیشن جماعتوں کی تقریروں  کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے چاہنے والے صرف ان کو ہی تمام مسائل کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ امیدوں کا ایک طوفان ہے جو اس تحریک سے جوڑا جا رہا ہے اور کیا امیدیں پوری ہوتی ہیں۔ حقیقت میں تحریک انصاف سے وابستہ امیدیں ہی تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بن رہی ہیں۔

ہاں یاد آیا اس بوڑھے چوبدار کے ساتھ کیا ہوا۔ بادشاہ سلامت جاگے تو انہیں یاد آیا کہ اس نے گرم کپڑوں کا وعدہ کیا تھا۔ محل کے ملازمین کو حکم دیا کہ گرم کپڑے فراہم کیے جائیں اور وہ خود رات کی غفلت کا ازالہ کرنے کے لیے چوبدار کو لباس پیش کریں گے۔ محل میں دوڑیں لگ گئیں۔ جلد ہی گرم لباس بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ سلامت خادموں کے جلو میں محل کے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ باہر چوبدار کی سردی سے اکڑی لاش پڑی تھی لیکن مرنے سے پہلے اس نے زمین پر کانپتے ہاتھوں سے بادشاہ کے لیے ایک پیغام چھوڑا تھا۔

’بادشاہ سلامت، کئی دہائیوں سے میں محل کی حفاظت پر مامور رہا۔ ہزاروں سرد ترین راتیں میں نے خوشی خوشی اسی پتلی پوشاک میں بسر کیں اور صبح کا اجالا دیکھا۔ پہلی بار آپ نے مجھے امید دلائی میں انتظار میں رہا اور لگتا ہے یہی امید آج میری جان لے کر چھوڑے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ