فیس واپسی سکیم کے خاتمے سے طلبہ پریشان

مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں شروع کی گئی ’پرائم منسٹر فیس ری امبرسمنٹ سکیم‘ کے تحت قبائلی اضلاع اور چاروں صوبوں کے پسماندہ اضلاع کے طلبہ کے تعلیمی اخراجات اٹھائے جاتے تھے۔

ایچ ای سی کے اعداد و شمار کے مطابق فیس واپسی سکیم سے پانچ سالوں میں ایک لاکھ 83  ہزار طلبہ مستفید ہوئے ہیں اور ایک سال میں 36 ہزار کے قریب  طلبہ کے تعلیمی اخراجات اسی سکیم کے تحت برداشت کیے گئے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے ’احساس‘ سکالر شپ پروگرام کا افتتاح کردیا گیا ہے، جس کے تحت چار سالوں میں دو لاکھ غریب طلبہ کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے جائیں گے۔

لیکن موجود حکومت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران 2012 میں شروع کی گئی ’پرائم منسٹر فیس ری امبرسمنٹ سکیم‘ کو بند کردیا، جس کا انتظام ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سنبھالتا تھا۔

اس سکیم کے تحت قبائلی اضلاع اور چاروں صوبوں کے پسماندہ اضلاع کے طلبہ کے تعلیمی اخراجات اٹھائے جاتے تھے۔ تاہم اب طلبہ کے مطابق انھیں کہا گیا ہے کہ ان کی رہ جانے والی فیسیں ایچ ایس سی ادا نہیں کرے گا۔

اسی سکیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے مالاکنڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے 2017 میں ’ری امبرسمنٹ سکیم‘ کے تحت ماسٹرز ڈگری میں داخلہ لیا اور سکیم کے قوانین کے مطابق دو سال میں ڈگری کی جو فیس انہوں نے ادا کی، وہ انہیں واپس ہونی تھی۔

تاہم مذکورہ طالب علم کے مطابق انہیں ایک سال کی فیس واپس کر دی گئی اور ایک سال کی نہیں کی گئی جبکہ یونیورسٹی کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ ’یہ سکیم موجودہ حکومت نے ختم کی ہے، اس لیے آپ کو ابھی فیس واپس نہیں ہو سکتی۔‘

ان کا کہنا تھا: ’حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پرانی سکیم بھی جاری رکھتے اور ساتھ میں نئی سکیم شروع کر دیتے کیونکہ ابھی پرانی سکیم کے ختم ہونے سے ہزاروں طلبہ متاثر ہوں گے۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم نے مشکل سے کسی سے پیسے لے کر فیس ادا کی تھی کیونکہ سکالرشپ کے قوانین یہ تھے کہ پہلے طلبہ فیس ادا کریں گے اور بعد میں انہیں فیس واپس کی جائے گی، لیکن ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایچ ای سی کے اعداد و شمار کے مطابق فیس واپسی سکیم سے پانچ سالوں میں ایک لاکھ 83  ہزار طلبہ مستفید ہوئے ہیں اور ایک سال میں 36 ہزار کے قریب  طلبہ کے تعلیمی اخراجات اسی سکیم کے تحت برداشت کیے گئے۔ دوسری جانب نئے شروع ہونے والے ’احساس‘ پروگرام کے تحت چار سالوں میں دو لاکھ طلبہ کو سکالرشپس دی جائیں گی، جس میں چار سالہ ڈگری پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ پچھلی فیس واپسی سکیم میں صرف ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ شامل تھے اور وہ بھی صرف مخصوص پسماندہ اضلاع کے طلبہ، جبکہ احساس سکیم میں پورے ملک کے اضلاع کو شامل کیا گیا ہے۔

ایک اور طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے نئی سکیم تو شروع کی ہے لیکن انہوں نے ہماری سکالرشپ بند کردی اور انہیں ایک سال کی فیس واپس نہیں کی گئی۔‘

ایچ ای سی کا کیا موقف ہے؟

ایچ ای سی کے چیئرمین طارق بنوری سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فیس واپسی کی سکیم 2012 میں شروع کی گئی تھی، جس کے تحت 17-2016 میں جن طلبہ نے اس سکیم کے تحت داخلہ لیا، ان کے تعلیمی اخراجات ان کی سٹڈیز مکمل ہونے تک ادا کیے جائیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ’احساس پروگرام‘ گذشتہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی فیس واپسی سکیم کی توسیع ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’فیس واپسی سکیم چھوٹی تھی، جس میں صرف ماسٹرز، ایم افل اور پی ایچ ڈی والے طلبہ شامل تھے اور اس میں صرف خاص علاقوں کو شامل کیا گیا تھا۔‘

تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ جو طلبہ فیس واپسی سکیم کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہیں فیس واپس کیوں نہیں کی گئی تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ’آپ کو غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس