بارسلونا میں ایک پاکستانی نژاد کونسلر کی کہانی

طاہر رفیع کی عُمر کا سِن پچاس ہے۔ عادات چالیس والی اور گُفتگو ساٹھ کی کرتے ہیں۔ ایک سال سے وہ بارسلونا کا پہلا اردو سکول بھی چلا رہے ہیں جہاں چھ سال سے زائد بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔

طاہر رفیع  کا تعلق   لاہور کے علاقے  شاد باغ سے ہے۔ (تصویر: طاہر  رفیع فیس بک پیج)

بارسلونا کے علاقے ال روال کے پاس متعدی امراض کا ایک ہسپتال ہے۔ گو ہسپتال نئی عمارت میں منتقل ہو چکا ہے مگر طاہر رفیع 20 برس سے کسی پرانی رُوح کی طرح اس ہسپتال کے اعصاب پر سوار ہیں۔

گو وہ بہت سے اعصاب پر سوار ہیں مگر ہم ان کی زندگی کے وہ پہلو سامنے لا رہے ہیں جنہیں طاہر رفیع کی ذات میں کاتبِ تقدیر نے رکھا تھا اور جِسے گُن کہتے ہیں اور اُسی کے پہلے پہل بَل اور پھر بوتے پر اُنہوں نے ترقی کے مدارج طے کیے۔

طاہر رفیع شاد باغ، لاہور سے ہیں۔ وہ ایم بی اے کرنے کے بعد پاکستان میں بینک میں افسر رہے۔ طاہر بھی مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے بارسلونا، ہسپانیہ پہنچے۔ یہاں پہنچنے کے بعد وہ بھی منسٹری آف امیگریشن کی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے۔ یہاں اُن پر ابتدائی دن گراں گُزرے مگر پھر ایک دن وہ بھی ’پیپروں‘ والے ہوگئے۔ ہسپانوی زبان سیکھی اور ہسپتال میں مترجم کی نوکری مل گئی۔ کُچھ عرصے بعد کال سینٹر بھی بنا لیا۔ جب معاشی استحکام نصیب ہوا تو وہی کیا جسے ہر ذی عقل ’کرائسس‘ کہتا ہے، یعنی شادی کر لی۔

اُن کا سارا زور معاشرتی انضمام، تعلیم اور ڈائیلاگ پہ لگتا ہے۔ طاہر رفیع نے پہلے زبان اور پھر مقامی ثقافت میں مہارت پیدا کی۔ ہسپتال میں پاکستانیوں کو ہر ممکن سہولت پہنچائی اور ساتھ ہی اداروں کے ساتھ روابط بڑھائے۔ اپنے معاشرتی انضمام سے ہمارے خیال میں پاکستانی کمیونٹی کی ڈھارس بندھی اور ہسپتال میں پاکستانی مترجم کی شہرت نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور طاہر رفیع مقبول ہونے لگے۔

آپ اندازہ کریں اُس حالت کا جب زبان نہ آنے کی وجہ سے بندہ کھانا تو کھا لیتا ہے مگر اُسے ہاضمے کے بعد والی حالت بیان کرنا نہ آتا ہو تو عین اُس لمحے کسی پاکستانی کا مقامی زبان میں ڈاکٹر صاحب کو صرف اتنا بتا دینا کہ ’پہائی ہوراں نُوں قبض اے‘ کسی کرامت سے کم نہیں۔ بس اس طرح کی چھوٹی چھوٹی کرامات طاہر رفیع کے قد میں اضافہ کرتی گئیں اور وہ باقاعدہ کرامات سے آگے واردات کی طرف بڑھتے گئے۔

اب وہ یورپ کے معتبر ترین تحقیقی ادارے بائی دے ہیبرون (Vall de Hebrón) یونیوسٹی ہسپتال میں ایشیائی کمیونٹیز بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کے ٹی بی تا ہیپاٹائٹس کے سربراہ ہیں۔ حال ہی میں گلی، محلے، سکولوں، تقریبات اور قونصل خانے تک میں لگائے جانے والے سکریننگ کیمپس کی بدولت ہزاروں پاکستانیوں میں سے ہیپاٹائٹس سکریننگ کے نتیجے میں بیسیوں خواتین و حضرات کامیاب علاج کروا چکے ہیں۔

اُنہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا۔ تین سال قبل یونیوسٹی ہسپتال دل مار کے انسٹیٹیوٹ آف بائیو میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ کو راضی کر لیا کہ وہ اپنے ڈاکٹرز کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے پاکستان بھیجیں گے۔ تین ڈاکٹرز انفیکشس امراض ٹی بی اور ہیپاٹائٹس میں اپنا تحقیقی کام پاکستان جا کر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

طاہر رفیع کا آفس چونکہ بارسلونا مرکز میں واقع ہے، اس لیے تمام حکومتی ادارے چار چفیرے ہیں۔ اُنہوں نے سماجیات کا کام بھی اپنالیا اور پاک فیملی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ عامۃ الناس کی خدمت ہسپتال سے لے کر اداروں تک ہونے لگی۔ ہماری کمیونٹی کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمیں راہ پانے کے لیے ہر وقت کوئی درکار ہوتا ہے، ورنہ ہم کراہ کے چکر میں شاداں و فرحاں، بالکل ویسے ہی جیسے ایک پھٹپھٹی نئی اور انجان شاہراہ پر پھرتی ہے، کی مثل مٹر گشت کرتے پائے جاتے ہیں۔ تو طاہر رفیع نے طبی خدمات، ترجمہ، کال سینٹر جسے ہم مقامی زبان میں Locotorio کہتے ہیں یا پرانے وقتوں میں ہمارے ہاں چُونے سے دیوار پر پبلک کال آفس لکھا ہوتا تھا، کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات بھی مہیا کرنا شروع کر دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماجیات میں بڑھتی مصروفیات کے پیشِ نظر لوکو توریو کو فال خطی دے دی اور جاب کے ساتھ سماجی کام کرنے لگے۔ وہ لگاتار آٹھ سال پاک فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ پاک فیڈریشن کے پہلے صدر چوہدری ثاقب طاہر تھے اور آخری، تا وقت، بھی وہی ہیں مگر اس جُگاڑ پر پھر کبھی بات ہوگی۔ فی الحال اتنا ہی کہ پاک فیڈریشن ہسپانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کی پہلی نمائندہ تنظیم ہے۔

نوکری، سماجیات اور ہسپانوی اور کاتالان پر ہلہ شیری نے طاہر رفیع کو جہاں پاکستانی کمیونٹی کے لیے خدمات پر میدان میں رکھا، وہیں ہسپانوی سیاسی اور سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی نظریں پڑنا شروع ہوگئیں۔ وہ کُچھ پاکستانی تنظیموں اور اُن کے توسط سے کہیں آنکھ کے بال کہلائے، کہیں شہتِیر مگر ساقی جانتا تھا کہ مٹی نم ہے۔

پھر یُوں ہوا کہ سن 2016 کے وسط میں ایک نئی اُبھرتی سیاسی جماعت سیودادانوس اُن کے دفتر میں اُن سے پینگیں بڑھانے لگی۔ طاہر کے اخباری و اشتہاری ہونے کی وجہ سے اُن کو اپنے وَٹ نکالنے میں سوائے مخولیہ سی سکروٹنی کے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ اُن پر اِس سیاسی جماعت کی نظروں کے آ لگنے کی بنیادی وجہ بنا وہ پروگرام بنا، جس کا انعقاد طاہر رفیع بارسلونا کے مضافاتی اور اپنے رہائشی شہر اوسپتالیت دے یوبریگات میں گزشتہ سات برس سے ہر سال ستمبر میں بیک ٹو سکُول کے نام سے کرتے ہیں۔ اس پروگرام بلکہ اُن کے تمام پروگراموں کا ایک ہی نعرہ ہے: ’معاشرتی انضمام تعلیم کے ذریعے۔‘ ایک سال سے وہ بارسلونا کا پہلا اردو سکول بھی چلا رہے ہیں جہاں چھ سال سے زائد بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔

2017 میں ہسپانیہ کی دس سالہ نوجوان جماعت سیودادانوس، جو جنرل الیکشن کے بعد ہسپانیہ کی تیسری بڑی اور کاتالونیہ کی پہلی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، نے اُنہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا۔ پھر اُن کی ٹیم کی دیسی قسم کی پتھر توڑ الیکشن مہم کو دیکھتے ہوئے اُنہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔

طاہر رفیع اور اُن کی ٹیم کی سیاسی حرکات و سکنات کے مدِنظر پارٹی نے فیصلہ کیا کہ دوڑ تو وہ لگا سکتے ہیں، ٹیم بھی جاندار ہے مگر سونا بھٹی میں تپ کر کُندن ہوتا ہے۔ اِسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سیودادانوس جماعت نے اُنہیں سیوداد بیعیا (Ciudad Bella)  میں دو میں سے ایک کونسل کی سیٹ عطا کر دی۔ اب وہ باقاعدہ دوسرے پاکستانی ہیں جو کسی قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعت کے بارسلونا کے کونسل ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی قونصل جنرل علی عمران چوہدری نے پاکستانی کمیونٹی کے لیے اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اُنہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔

طاہر رفیع ہسپانوی نژاد پاکستانی ہیں۔ عُمر کا سِن 50 ہے۔ عادات 40 والی اور گُفتگو 60 کی کرتے ہیں۔ سردی، گرمی، بہار، خزاں، بارش،  برف باری میں پینٹ کوٹ میں ملبوس اس جوان کے بیوی بچوں سے پہلی ملاقات ہوئی تو یقین آیا کہ بچوں کی دعائیں واقعی قبول ہوتی ہیں۔ پھر یُوں ہی نظر بھابی جی کے ہاتھوں پر پڑی۔ بس قارئین وہ دن ہے اور آج کا دِن، ہم مانتے ہیں کہ طاہر رفیع کے لیے دُعائیں شاید کرنے والے چار کی بجائے چار ہزار ہاتھ ہوں مگر اُن کے پیچھے وہی دو ہاتھ ہیں اور یہی وہ گُن ہے جو طاہر کے قد کاٹھ میں بڑھوتری کی وجہ بھی ہے کہ صبح کا نکلا رات گئے بلاناغہ واپس آئے اور سر سلامت ہو تو اہلِ علم و دانش کو سمجھنے کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی