فاٹا میں کون سا نظام چلے گا، پولیس یا خاصہ داری؟

خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد فاٹا میں قانون نافذ کرنے کا کون سا نظام لاگو کیا جائے گا؟

فوٹو کریڈٹ: عامر آفریدی

سابقہ قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں ضم ہو جانے کے بعد آج کل حکومتی و غیر حکومتی گروہوں کے مابین ان علاقوں میں پولیس نظام لانے کے موضوع پر خاصا اختلاف پایا جا رہا ہے۔ فی الحال مکمل طور پر یہ طے نہیں ہوا ہے کہ ضم شدہ علاقہ جات میں کس قسم کا قانون ہو گا، پولیس ہو گی یا پھر لیویز کا نظام، اور کون کس کو جواب دہ ہو گا۔

قبائلی کیا چاہتے ہیں، پولیس نظام یا پھر خاصہ دار اور لیویز؟

 خیبر یوتھ فورم کے نوجوان صدر عامر آفریدی کا کہنا ہے کہ حقیقت میں فاٹا کی تعلیم یافتہ نئی نسل پولیس نظام کی حامی ہے۔ اس کے علاوہ باجوڑ کے لوگ بھی پولیس کے حق میں ہیں کیونکہ وہ باقی ماندہ اضلاع سے زیادہ باشعور ہیں۔ کرم ایجنسی کے لوگ بھی پولیس نظام چاہتے ہیں کیونکہ وہاں فرقہ واریت کا مسئلہ ہے۔

’میں خود بھی اس نظام کے حق میں ہوں، کیونکہ اب ہم خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں۔ اسی لیے اب ہمیں بھی باقی صوبے کی طرح حقوق ملنے چاہییں اور یہی سپریم کورٹ کا حکم بھی ہے۔ اگر عام آدمی کی بات کریں تو وہ پولیس نظام قبول کرنے سے کترا رہا ہے کیونکہ وہ اس نظام کا عادی نہیں ہے۔ انہیں ایک قسم کا خوف ہے۔ وہ پینٹ شرٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ تھانوں کا وجود برداشت نہیں کر پائیں گے۔

’ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ زیادہ تر ایسے گروہ بھی پولیس نظام کے خلاف ہیں جو دراصل فاٹا انضمام کے خلاف ہیں، یا پھر وہ لوگ جو جرائم پیشہ ہیں۔ وہ سادہ لوح لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔ انہیں بہکا رہے ہیں۔ تاکہ فساد برپا ہو۔‘

جن دنوں صلاح الدین محسود خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ تھے، انڈیپنڈنٹ اردو نے پولیس نظام کے حوالے سے ایس ایس پی آپریشنز ظہور آفریدی سے بھی سوال کیا تھا، کیونکہ سننے میں یہی آ رہا تھا کہ جناب محسود پولیس نظام کے خواہاں ہیں۔

ظہور آفریدی کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ عبوری دور مشکل ضرور ہو گا لیکن پولیس نظام لانے سے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو گا۔

انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’پولیس ایکٹ کے تحت فاٹا کے لیویز و خاصہ دار جن کو پولیس میں ضم کیا جاَئے گا، ان کے سربراہان ایس ایچ او ودیگر افسران ہوں گے۔ جب کہ ورک فورس یہی رہے گی۔ ساتھ ساتھ میں ان کو تربیت ملتی رہے گی، اور تھانوں کی تعمیر بھی ہوتی رہے گی۔ آپ نے کہیں سے تو آغاز کرنا ہو گا، فاٹا کو مین سٹریم میں لانے کے لیے۔‘

حکومتی کمیٹی کے ارکان کا موقف کیا ہے؟

سابقہ فاٹا میں اصلاحات کے لیے گورنر شاہ فرمان نے ایسے بیوروکریٹس کی کمیٹی بنائی ہے جو یا تو خود قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ان علاقوں سے متعلق تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کمیٹی کو ’گڈ گورننس کمیٹی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سنگی مرجان محسود جو اس کمیٹی کے رکن ہیں اور ماضی میں مختلف قبائلی اضلاع کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

ان سے انڈپیندنٹ اردو نے سوال کیا کہ وہ لیویز نظام لانے کی اتنی حمایت کیوں کر رہے ہیں، تو انہوں نے یہ منطق پیش کی: ’اگر کسی کا خیال ہے کہ لیویز کا نظام غلط ہے تو ملاکنڈ کی مثال کو سامنے رکھ سکتے ہیں، جو کہ تقریباً 20 سال پہلے قبائلیت سے ضلعی نظام میں ضم ہوا ہے، اس دوران لیویز بدستور پولیس فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور ان کی کارکردگی کو ہر جگہ سراہا جا رہا ہے۔ کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔

 میں کہتا ہوں کہ سب کچھ بتدریج ہو۔ پہلے لیویز کو لایا جائے اور پھر پولیس کو متعارف کیا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ ٹرانزیشن کا مرحلہ آسانی سے طے ہو سکے گا۔ اگر قبائلیوں پر ایک دم سے پولیس نظام لایا گیا، تو اس سے ایک مرتبہ پھر فاٹا کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ صلاح الدین محسود تھانوں کی تعمیر پر زور دے رہے تھے، ان سے کوئی پوچھے کہ اپنے وزیرستان میں ذرا ایک تھانہ تو تعمیر کر کے دکھائیں۔‘

نومبر 2018 میں گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کہا تھا کہ فاٹا میں پولیس نظام لانے سے پہلے مرحلے میں ان اضلاع ہی سے 40 ہزار لیویز کا عملہ بھرتی کیا جائے گا۔ موجودہ فرمان یہ ہے کہ ان لیویز کے سربراہان ڈسٹرکٹ پولیس افسران ہوں گے۔ دوسری جانب پولیس کے محکمے کے مطابق خیبر پختونخوا میں پولیس افسران کی نہایت کمی ہے۔ نئے نظام کے لیے مزید افسران کو کہاں سے لیا جائے گا، یہ بھی ایک سوال ہے۔

لیویز کا آغاز کہاں سے ہوا؟

 برطانیہ کے دور حکومت میں فاٹا میں خاصہ دار ہوا کرتے تھے۔ یہ مسلح گروہ اپنی اپنی قبائلی شاخوں سے منتخب ہوتے تھے۔ ان کے ہتھیار اور وردی ان کی اپنی ذاتی ذمہ داری ہوا کرتی تھی اور تنخواہ حاکمِ وقت سے ملتی تھی۔ چونکہ ان کی وردی یا ’خاصہ‘ (ملیشیا) کپڑے کی ہوتی تھی اس لیے ان کا نام بھی ’خاصہ دار‘ پڑ گیا۔

خاصہ داروں کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی شرط نہیں تھی۔ خاصہ داری کا نظام پدرانہ وراثت پر موقوف تھا۔ لہٰذا صاحبِ منصب کی وفات پر اس کا بیٹا اسی منصب پر فائز ہو جاتا تھا۔ اس نظام کی خرابی یہ تھی کہ اپنی ذمہ داری سے غافل رہ کر بھی خاصہ داروں کو باقاعدگی سے تنخواہ اور واجبات ملتے تھے۔

جب قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کا آغاز ہوا تو انتظامیہ کو ضرورت محسوس ہوئی کہ نیم پختہ خاصہ دار فورس نہ تو اپنے قبیلے کا انتظام و انصرام سنھبال سکتے تھے اور نہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی مدد کر سکتے تھے۔ یہیں سے اس سوچ کا آغاز ہوا کہ دوران دہشت گردی قبائلیوں کی طرف سے بھی ایسی جنگجو اور منظم فورس پیدا ہو جو اپنے علاقے کی جغرافیائی پہچان، قبائلیت کے اصول اور پاکستان کی قومیت کی بقا سے بخوبی واقف ہو۔ لہٰذا لیویز فورس کی بنیاد رکھی گئی۔ آج بھی لیویز خاصہ داروں کے علاوہ فرنٹیر کور، فرننٹیرکنسٹبلری اور پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی تنخوا اور فرائض واجبات اور ڈسپلن تقریبن فرنیٹر کنسٹبلری سے ملتی جلتی ہے۔

اب جبکہ حکومت نے خاصہ داروں کے بجائے لیویز فورس کا باقاعد ہ انتخاب کیا ہے تو تجزیہ نگاروں کی جانب سے خیال کیا جاتا ہے کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنے میں حکومت کو زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔ لیکن لیویز کا عملہ تب تک بیکار ہے جب تک ان کو تربیت نہ دی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان