اویغور شاعر و موسیقار زندہ، چین نے ویڈیو جاری کر دی

ترک حکومتی ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ مسلمان شاعر و موسیقار عبدالرحیم حیات چین میں ایک حراستی کیمپ میں وفات پا چکے ہیں

اطلاعات کے مطابق عبدالرحیم حیات کو ان کے ایک گانے کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔ فوٹو: عبدالرحیم حیات (ویڈیو پیغام)

چینی سرکاری میڈیا نے اطلاعات کے مطابق آٹھ سال سے قید شاعر اور موسیقار کی ویڈیو جاری کی ہے جس سے اس خبر کی نفی کی گئی ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔

ترک حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلمان شاعر و موسیقار عبدالرحیم حیات چین میں ایک حراستی کیمپ میں وفات پا چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عبدالرحیم حیات کو ان کے ایک گانے کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔

چین ریڈیو انٹرنیشنل کی ترکش زبان سروس پیر کی رات 26 سیکنڈ کی ویڈیو منظر عام پر لائی جس میں اپنے آپ کو عبد الرحمٰن حیات کہنے والا شخص بتا رہا ہے کہ وہ 'روبصحت' ہے۔

ویڈیو میں حیات نے کہا ہے کہ: 'آج 10 فروری، 2019 ہے۔ میں مبینہ طور پر مقامی قوانین کی خلاف ورزی کی بنا پر زیر تفتیش ہوں۔ میں رو بصحت ہوں اور میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔'

مگر سماجی کارکنان کو اندیشہ ہے کہ ان سے یہ بیان زبردستی دلوایا گیا ہے۔

حیات کا تعلق اویغور برادری (چین کے سنکیانگ علاقے میں مقیم اقلیت) سے ہے۔ حال ہی میں متعدد اویغور چین سے ہجرت کر کے ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔

ترک حکومت نے چین میں مسلمانوں کے لیے قائم حراستی کیمپوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کیمپوں میں موجود دس لاکھ اویغور کو رکھنا ’انسانیت کے لیے شرمناک ترین‘ عمل ہے۔

ترک حکومت کے ترجمان ہامی اکسوئے کا کہنا ہے کہ 'اس المناک واقعے نے ترکی میں موجودہ افراد کی ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر موقف کو مزید مضبوط کیا ہے۔‘

مگر انکرہ میں موجود چینی سفارت خانے نے اکسوئے کے الزامات کو غلط قرار دے کر الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترکی میں موجودہ اویغور برادری کا ویڈیو پر کہنا ہے کہ حیات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان سے یہ بیان زبردستی دلوایا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین اکثر و بیشتر حراستی کیمپوں میں موجود افراد سے اسی طرح زبردستی بیانات دلوا کر سرکاری میڈیا کے ذریعے چلاتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ اور سنکیانگ کی مقامی حکومت نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

چین ایسے کیمپوں کی موجودگی سے پہلے انکار کرتا رہا ہے مگر بعد میں ان کیمپوں کو مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے تعلیمی مرکز کہا گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا