جا بجا ’بے احتیاطی‘ سے رکھے کنٹینروں کا پہلا شکار

پانچ نومبر کی رات اسلام آباد میں کنٹینر سے ٹکرا کے ہلاک ہونے والے 33 سالہ عثمان اکرم کے خاندان نے نعش کا پوسٹ مارٹم یا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اسلام آباد کی ایک سڑک پر رواں دواں ٹریف کے بیچ کنٹینر بغیر کسی تنبیہ کے رکھے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی روکاوٹ کھڑی کرتے وقت لوگوں کی حفاظت انتہائی مقدم رکھی جاتی ہے(اے ایف پی)

پانچ نومبر کی رات اسلام آباد میں تیز بارش جاری تھی۔ تینتیس سالہ عثمان اکرم گاڑی میں ایف الیون میں واقع دفتر سے گھر کے لیے روانہ ہوئے۔

اندھیرے اور بارش کے باعث حد نظر بہت کم تھی۔ نائنتھ ایونیو پر ایک موڑ کاٹتے ہوئے ان کی گاڑی پولیس حکام کی مبینہ غفلت کے باعث سڑک کے بیچ میں پڑے کنٹینر سے ٹکرا گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق کنٹینر پر کوئی تنبہ یا ریفلیکٹر نہیں لگا تھا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔

عثمان کو سر میں چوٹیں آئیں اور وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان ضیا الحق کے مطابق دراصل کنٹینر میں آزادی مارچ کے چند شرکا نے بارش سے پناہ لے رکھی تھی۔ اور اس کا دروازہ کھلا تھا۔

اور اسی وجہ سے یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیاالحق کا کہنا تھا کہ اس میں پولیس کی بھی غفلت شامل ہے۔ آزادی مارچ والوں کو یہ کنٹینر استعمال نہیں کرنے دینا چاہیے تھا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذکورہ کنٹینر بیچ سڑک کے رکھا گیا تھا جو اپنی جگہ سے ہلا بھی ہوا تھا۔

گذشتہ تقریبا دس روز سے وفاقی دارالحکومت کی مختلف سڑکوں اور شاہراہوں پر کئی بڑے بڑے کنٹینرز رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا مقصد جمیعت علمائے اسلام (ف) کی آزادی مارچ کے ساتھ آنے والے لوگوں کو وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون اور دوسرے اہم اور حساس علاقوں سے دور رکھنا ہے۔ تاہم شہریوں کو شکایت ہے کہ اکثر کنٹینر بغیر کسی احتیاط کے سڑک کے درمیان میں رکھے ہوئے تھے۔

ضیا الحق نے بتایا کہ اسلام آباد اور اس کے گردو نواح میں سڑکوں اور شاہراہوں پر چھوٹے بڑے 690 کنٹینرز رکھے گئے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کو جانے والی کئی سڑکوں کے عین درمیان میں کئی کئی کنٹینرز رکھ کر انہیں آمد و رفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح ایچ نائن میں جاری آزادی مارچ کی جلسہ گاہ کے ارد گرد بھی سڑکیں بشمول کشمیر ہائی وے مکمل طور پر بند ہیں۔

اکثر سڑکوں کے کنارے کئی کنٹینرز پڑے ہوئے ہیں۔ جو حالات خراب ہونے کی صورت میں سڑکوں کے درمیان میں رکھ دئیے جائیں گے۔ تاکہ  آزادی مارچ کے شرکا کو حساس علاقوں کی طرف بڑھنے سے روکا جا سکے۔

کئی مقامات پر سڑکیں جزوی طور پر بند کی گئی ہیں۔ کنٹینرز ایسے رکھے گئے ہیں کہ ان سے سڑک کا آدھا حصہ بلاک ہے۔ یعنی یہ دیو ہیکل کنٹینرز سڑک کے عین بیچ میں براجمان ہیں۔

جمیعت علما اسلام (ف) کی آزادی مارچ کے شرکا اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن کے ایک کھلے میدان میں احتجاج کر رہے ہیں۔

بارش کی صورت میں آزادی مارچ کے شرکا مختلف جگہوں پر پناہ لیتے ہیں۔ انہی پناہ گاہوں میں ارد گرد کی سڑکوں پر پڑے کنٹینرز بھی شامل ہیں۔

عثمان کے خاندان نے نعش کا پوسٹ مارٹم یا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

حادثے میں ہلاک ہونے والے عثمان کے چھوٹے بھائی عدنان کا کہنا تھا: میرا بھائی تو مر گیا۔ اس کی معصوم بچیاں یتیم ہو گئیں ہیں۔ لیکن خدارا سڑکوں پر پڑے ان قاتل کنٹینروں کے ہاتھوں مزید گھر اجڑنے سے بچا لیں۔

تینتیس سالہ عثمان کے والد اکرم چوہدری نے بتایا کہ مرحوم نے تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ جن میں سب سے بڑی کی عمر چھ سال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آدھی رات کے قریب اس حادثے کی اطلاع ملی۔

ان فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے عدنان کا کہنا تھا: پوسٹ مارٹم اور مقدمہ درج کرنے کا کیا فائدہ ہونا تھا۔

انہوں نے کہا: بے نظیر بھٹو اس ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ ان کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ میرا بھائی تو حادثے میں ہلاک ہوا۔ کون پوچھے گا۔

اسلام آباد کے ایک شہری امجد نظامی نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اکثر کنٹینرز سے موڑ کاٹتے ہوئے مشکل ہو جاتا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے زیرو پوائنٹ اور نائنتھ ایونیو میں پڑے کنٹینرز کا خصوصا ذکر کیا۔

امجد نظامی کا کہنا تھا: خصوصا رات میں اور اگر بارش بھی ہو رہی ہو تو ان کنٹینرز سے بچنا اچھا خاصا مشکل کام ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ انتظامیہ کو سڑک کے بیچ و بیچ پڑے کنٹینرز پر ریفلیکٹرز لگانے چاہئیے۔ تاکہ رات کے اندھیرے اور بارش میں انہیں اچھی طرح سے دیکھا جا سکے۔

پولیس ترجمان نے نے کہا کہ ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ کنٹینرز سے ٹریفک کے بہاو میں خلل نہ پڑے اور شہریوں کو کم سے کم تکلیف ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان