قتل کے فتوے کے 30 سال: مسلم دنیا میں آج بھی قابل نفرت سلمان رشدی

30 برس قبل آج کے ہی دن ایران کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے برطانوی مصنف سلمان رشدی پر ناول ’دی سیٹینک ورسز’ لکھنے پر قتل کا فتوی جاری کیا تھا۔

مارچ 2001 کی اس تصویر میں ناولسٹ سلمان رشید اپنی دوست پدما لکشمی کے ساتھ ایمسٹرڈیم میں ایک کتب پارٹی میں شریک ہیں۔ فوٹو_اے ایف پی

چودہ فروری 1989 کے دن ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے برطانوی مصنف سلمان رشدی پر اسلام کی تذلیل کا الزام عائد کرتے ہوئے ناول ’دی سیٹینک ورسز’ لکھنے پر قتل کا فتوی جاری کیا تھا۔ فتوی میں خمینی نے ’دنیا کے مسلمانوں سے کہا کہ کتاب کے مصنف اور شائع کرنے والے کو فوری طور پر قتل کر دیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے بھی اگر کوئی ہلاک ہوتا ہے تو وہ شہید تصور ہوگا اور جنت جائے گا۔’ خمینی نے جن کی زندگی کے چار ماہ باقی تھے تقریبا تین کروڑ ڈالرز کا انعام بھی مقرر کیا تھا۔

برطانوی حکومت نے فورا لادین سلمان رشدی کو جو انڈیا میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے پولیس تحفظ فراہم کر دیا۔ انہیں جوزف اینٹن کے نقلی نام سے مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا۔ پہلے چھ ماہ میں انہیں 56 مرتبہ مقامات تبدیل کرنے پڑے۔ جوزف اینٹن کی یاداشتوں پر مبنی اپنی ڈائری میں انہوں نے 2012 میں لکھا کہ انہیں ’زبان بندی اور قید میں رکھا گیا۔ میں بول بھی نہیں سکتا تھا۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ پارک میں فٹبال کھیلنا چاہتا تھا۔ عام زندگی، میرا ناممکن خواب تھی۔’ ساڑھے چھ سو صفحات پر مبنی اپنی ان یاداشتوں میں انہوں نے لکھا کہ یہ ناول ’سب سے زیادہ کم سیاسی تھا۔’

وائیکنگ پینگون نے سٹینک ورسز ستمبر 1988 میں شائع کی تھی۔ کتاب لندن میں سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور اسلام کے مقدس اور قدیم مقام مکہ پر مبنی ہے۔ یہ دو انڈین اداکاروں جبریئل اور صلاحدین کے گرد گھومتی ہے جن کا اغوا کیا ہوا طیارہ انگلش چینل پر تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایک انگلش ساحل پر نمودار ہوتے ہیں جہاں وہ نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ ملتے ہیں اور یہاں سے رشدی کا تخلیقی کام شروع ہوتا ہے۔ خمینی اور دیگر کا ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کو غلط رنگ میں پیش کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب پر اکتوبر 1988 میں پابندی عائد کر دی تھی تاکہ انتخابات میں مسلمانوں نے حمایت جیت سکیں۔ تقریبا بیس دیگر ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل تھا اس پر پابندی عائد کی گئی۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں بریڈفرڈ میں مسلمانوں نے جنوری میں سڑکوں پر اسے نذر آتش کیا۔

اس کے ایک ماہ بعد ہزاروں افراد نے اسلام آباد میں امریکی انفارمیشن سینٹر پر ’امریکی کتا’ اور ’سلمان رشدی کو پھانسی دو” جیسے نعرے لگاتے ہوئے دھاوا بول دیا۔ امریکہ میں سوزین سونٹیگ اور ٹام ولف جیسے مصنفوں نے لیکچرز کے ذریعے سلمان کی حمایت شروع کیے۔ سلمان رشدی نے 1990 میں ایک ’ان گڈ فیتھ یا نیک نیتی سے‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں اپنی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن اکثر مسلمانوں کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔

سلمان بتدریج اپنی روپوش زندگی سے 1991 میں باہر آئے لیکن ان کے جاپانی مترجم اسی سال جولائی میں قتل کر دیئے گئے۔ چند روز بعد ان کے اطالوی مترجم پر چاقو سے وار کیا گیا اور دو سال بعد ناروے میں کتاب شائع کرنے والے پر گولی چلائی گئی۔ تاہم یہ کبھی واضح نہیں ہوسکا کہ ان حملوں کا خمینی کی دھمکی سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔

کئی مسلمانوں کو ملکہ برطانیہ کی جانب سے 2007 میں ادب کے لیے خدمات کے صلے میں سر کا خطاب دینے پر غصہ آیا۔ ایران نے برطانیہ پر ’اسلام و فوبیا‘ بڑھانے کا الزام عائد کیا۔ اس وقت تک رشدی بغیر کسی خوف کے نیو یارک میں بس چکے تھے جہاں وہ نوئے کی دھائی کے اواخر میں منتقل ہوئے تھے۔ سائے میں طویل عرصے تک رہنے کے اب ان کا ملنا ملانا بڑھ گیا ہے اور مغرب میں کئی لوگ انہیں آذادی اظہار کے ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔  

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ