’دس کے دو افغانی پکڑ لا‘

حالات اب یہ ہو گئے ہیں کہ ورلڈ کپ میں بھارت اور افغانستان کی ٹیمیں دوبدو ہوں تو ہم بھارت کے لیے مصلے بچھاتے ہیں اور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

افغان جہاد نے کابل و قندھارکو یتیمی اور یسیری کے گھاؤ نہ لگائے ہوتے تو شاید بچپن میں بھی  لفظ ’افغانی‘  کچھ زیادہ سنائی یا دکھائی نہ دیتا۔(اے ایف پی)

کراچی میں اول اول شنواری ریستوران کا ڈنکا پِٹا تو خلقت ٹوٹ پڑی۔ اس کے بعد شنواری نام کے ریستوران ایسے کھلے جیسے پاک افغان سرحد پر بسنے والا شنواری قبیلہ کراچی پر ٹوٹ پڑا ہو۔

کھانے کے انتظار میں بیٹھے تھے تو کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ خدا بھلا کرے ایک دوست کا کہ صورتِ حال کو اس نے بھانپ لیا۔ خاموشی توڑنے کے لیے اس نے سوال کر دیا: ’یہ شنواری کیا ہوتا ہے؟‘

دوسرا دوست جو کلے میں پان دبائے بیٹھا تھا، اعتماد کے ساتھ پچکاری مار کر بولا: ’یہ ایک قسم کے دنبے کو کہتے ہیں جو قندھار سے لایا جاتا ہے۔‘

سوال کرنے والے بھائی نے کہا: ’قندھار کے دنبے میں ایسی کیا خاص بات ہوتی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقراط نے لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر کہا: ’خود اس بات سے اندازہ لگا لے بھائی کہ اس طرح کی کڑاہی کہیں اور کھانے کو کبھی ملی ہے کیا۔ نہیں نا؟ تو یہ سالا دنبے کا ہی تو فرق ہے۔‘

ایک اور دوست جو پشتو کی شُدبُد رکھتا تھا، اس نے میری طرف تائیدی نظر سے دیکھتے کہا: ’پشتو میں ’شِن‘ تو میرے خیال سے سبز کو کہتے ہیں اور واری شاید کڑاہی کو کہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پشتونوں کے ہاں گرین کڑاہی کو شنواری کہتے ہیں۔‘

موقعے پر موجود اکثریت نے اس علمی رائے سے اتفاق کیا۔ ایک جوان نے البتہ دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا: ’یار اب مجھے یاد نہیں کہ کس سے سنا تھا مگر کچھ اس طرح سنا تھا کہ شنواری شاید کوئی کاسٹ ہے۔‘

اسی اثنا میں ایک ویٹر رائتہ، سلاد و دیگر لوازمات دینے آ گیا۔ شکل و شباہت سے شنواری تو کیا، کسی درجے کا پختون بھی نہیں لگ رہا تھا۔ ایک دو جملے جو اس نے کہے، اس سے بھی سرائیکیت ٹپکی۔ ہمارے ایک دوست نے اُس غریب سے اچانک پوچھ لیا: تم شنواری ہو؟ معصومیت سے بولا: ’نہیں میں شکور ہوں۔‘

یہ کہانی مجھے ان دنوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر لفظ ’افغانی‘ کے تکرار سے یاد آئی۔ یہ تکرار تب شروع ہوئی جب نادرا کو اچانک خیال آیا کہ حافظ حمد اللہ پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ نادرا نے حافظ صاحب کے بیٹے اور والد سے متعلق کوئی رائے دینے سے گریز کیا۔ باپ بیٹے کے بیچوں بیچ سے حافظ صاحب کو اٹھایا اور خلائی مخلوق قرار دے دیا۔ اس کے بعد صحافیوں نے پوچھا: ’کیا آپ افغانی ہیں؟‘ سول سوسائٹی نے کہا: ’وہ افغانی کیسے ہوسکتے ہیں؟‘ حافظ صاحب کے ہمنواؤں نے کہا: ’کوئی کیسے ہمیں افغانی کہہ سکتا ہے۔‘ یعنی ہر جگہ کچھ اس درجے میں افغانی افغانی ہوگیا جیسے کراچی میں کبھی شنواری شنواری ہو گیا تھا۔ پھر افغانی کا معاملہ بھی اسی قندھاری دنبے جیسا ہوگیا جو ہمارے ایک دوست کی نظر میں شنواری کا معاملہ تھا۔ 

لفظ افغانی سے میرا واسطہ بچپن ہی میں پڑ گیا تھا۔ افغان جہاد نے کابل و قندھار کو یتیمی اور یسیری کے گھاؤ نہ لگائے ہوتے تو شاید بچپن میں بھی افغانی کچھ زیادہ سنائی یا دکھائی نہیں دیتا۔ علامہ اقبال کہتے تھے، افغان باقی کوہسار باقی۔ ایک دوست نے کہا: ’اقبال آج زندہ ہوتے تو بات شاید یوں ہوتی، افغان نہیں رہے کوہسار باقی۔‘ ہم نے افغانستان کے باشندوں کو اپنے ہی گھر میں ہراساں کیا تو جان بچانے کو وہ پاکستان چلے آئے۔

یہاں آئے تو ہم نے انہیں مہاجر کیمپوں میں باسی ٹکڑوں پر پالا اور جواب میں شکرگزاری کی توقع رکھی۔ اب وقت نے ذرا انہیں شکایت کا موقع دیا ہے تو ہمارے ریاستی شعور نے انہیں ’نمک حرامی‘ کا ٹائٹل دے دیا ہے۔

حالات اب یہ ہو گئے ہیں کہ ورلڈ کپ میں بھارت اور افغانستان کی ٹیمیں دوبدو ہوں تو ہم بھارت کے لیے مصلے بچھاتے ہیں اور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اب تو کوئی جدی پشتی افغان خود کو افغان کہہ دے تو میڈیا اور دانش کدے چار اطراف سے گھیر کے مارتے ہیں۔ وقت کا تقاضا یہ ہو چلا ہے کہ اپنے حسب نسب میں 14 اگست 1947 سے آگے مت جھانکو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم یہ تلخ داستان لے کر کیوں بیٹھ گئے؟ داستان تو میں نے سنانی تھی اُس وقت کی جب پہلی بار مجھ پر لفظ ’افغانی‘ کے معنی کھلے تھے۔

ہم ننھے سے تھے، ایک دوست کے ابا کے کارخانے میں اچھل کود کر رہے تھے۔ دوست کے ابا شلوار بنیان میں لقمہ چباتے ہوئے باہر آئے، اپنے ملازم اور ہمارے کاشف بھائی کو دس کا نوٹ تھمانے ہوئے کہا: ’یار فَٹ سے دو افغانی تو پکڑکے لے آ برابر سے۔ یوں جا اور یوں آ میرا بچہ!‘

یہ سُن کر ہماری حالت اندر ہی اندر غیر ہوگئی کہ یہ افغانی پکڑنے والا کیا معاملہ ہے۔ ایک تو افغانی اوپر سے دس کے دو؟ یہاں مائیں بچوں کو ’افغانی آجائے گا‘ کہہ دیں تو سانسیں تھم جاتی ہیں اور اپنے کانگڑی کاشف بھائی افغانی پکڑ کے لائیں گے، وہ بھی پورے کے پورے دو؟

جی ہی جی میں افغانیوں کو پکڑلانے کا یہ خوفناک منظر دیکھنے کا انتظار شروع کر دیا۔ کچھ دیر میں دھیان بھٹکا تو افغانی کا انتظار چھوڑ کر ہم پھر سے کھیل کود میں لگ گئے۔ کچھ دیر میں دیکھا تو کاشف بھائی وہیں سے نکل رہے ہیں جہاں سے دوست کے ابا ننگ دھڑنگ نکلتے دکھائی دیے تھے۔ میں نے لپٹ سمٹ کر آواز دی: ’کاشف بھائی‘

’جی بیٹا؟‘

’آپ افغانی لینے گئے تھے؟‘

’جی بیٹا‘

’لے آئے؟‘

’ہاں کب کا‘

’کہاں ہیں؟‘

’ارشد بھائی کھا رہے ہیں اندر بیٹھ کر‘

دھت تیری کی! اول وحشت ہوئی کہ ارشد بھائی افغانی کیسے کھا رہے ہیں؟ اچانک احساس ہوا کہ افغانی کھانے کی کسی عام چیز کو ہی کہتے ہوں گے۔ اطمینان کے لیے کاشف بھائی سے پوچھ لیا۔ پتہ چلا کہ کمبخت یہاں افغانی اُس لال روٹی کو کہتے ہیں جو کونے والی بھٹی پہ بنتی ہے۔ یعنی ساری عمر ہم نے افغان باشندوں کو منہ بھر کے افغانی کہا۔ عقل داڑھ نکلی تو معلوم پڑا کہ افغانستان میں افغانی وہاں کی کرنسی کو کہا جاتا ہے۔ جسے ہم افغانی کہتے ہیں اسے دراصل افغان کہتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتہ چلا کہ جس جنس کو ہم بلوچی کہتے ہیں وہ سرے سے بلوچی ہے ہی نہیں۔ جسے ہم بلوچی کہتے ہیں وہ بلوچ قوم کے ہاں دراصل زبان کو کہا جاتا ہے اور جسے ہم بلوچی کہتے ہیں وہ بلوچ کہلوانا پسند کرتا ہے۔ مزید وقت گزرا تو اندازہ ہوا کہ یہ معاملہ اس حد تک حساس ہے کہ اگر انسان کو اپنی عزت پیاری ہو تو وہ کسی افغان کے منہ پر اسے افغانی نہ کہے اور کسی بلوچ کو بلوچی نہ کہے۔ خاص طور سے اُس وقت کہ جب آپ اپنے تام جھام سے پڑھے لکھے بھی لگتے ہوں۔

ایک افغان یا بلوچ کا آپ پر علم و فضل کا گمان ہو اور آپ نے اسے افغانی یا بلوچی کہہ دیا تو سمجھیے آپ نے اپنی عزت کا جنازہ اپنے ہی سر پر اٹھا لیا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ بلوچ یا افغان سر پھٹول پہ اتر آتے ہیں۔ بس سیدھے سبھاؤ کہہ دیتے ہیں: ’آپ سے یہ امید نہیں تھی۔‘

کہنے کو تو یہ بہت بے ضرر سا جملہ ہے مگر یقین مانیے انسان کو پانی پانی کردینے کی پوری پوری صلاحیت اس جملے میں موجود ہے! 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ