’بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے‘

پاکستان نے بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا فیصلے نے ثابت کیا کہ بھارت میں اقلیتوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔

6 دسمبر 1992 کو لی گئی اس تصویر میں  ہندو نوجوان 16 ویں صدی میں بنی بابری مسجد  کے گنبد پر کھڑے ہیں۔ کچھ گھنٹوں بعد   ہندو قوم پرستوں نے بابری مسجد کو منہدم کردیا تھاجس کے نتیجے میں ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تھے (اےا یف پی)

پاکستان نے بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔

ہفتے کو پاکستانی دفترِ خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔’بھارتی سپریم کورٹ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی درخواستوں پر بھی سست روی دکھاتا رہا۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق فیصلے سے ثابت ہوا بھارت میں اقلیتوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے آج  ریاست اترپریش کے شہر ایودھیہ میں بابری مسجد اور رام مندر کے طویل عرصے تک چلنے والے آثارِ قدیمہ کے تنازع کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین مرکزی حکومت کے حوالے کرکے وہاں مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو ایودھیہ میں متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، جسے 16 اکتوبر 2019 کو محفوظ کیا گیا تھا۔

آج پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنانے کی ٹائمنگ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے یہ جانتے بوجھتے کہ آج ’راہ داری کھلنے پر جہاں سکھ براردی میں جشن کا سماں ہے‘ فیصلہ سنانے کا دن منتخب کیا۔ ’آج فیصلہ سنانا بے حسی کی ایک نئی مثال رقم کرتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ آج کا دن چھوڑ کر کسی اور دن فیصلہ سنا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ نے اپنے ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید کہا: ’ملکیت کا دعویٰ ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ دعوؤں کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ عقیدہ انفرادی معاملہ ہوتا ہے۔ ایودھیہ کو رام جنم بھومی سمجھنے والے ہندوؤں کے مذہبی جذبات ہیں اور مسلمان اس جگہ کو  بابری مسجد کی جگہ کہتے ہیں۔‘

’بابری مسجد خالی جگہ پر نہیں بلکہ ایک ہندو انفراسٹرکچر پر تعمیر کی گئی تھی۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں متنازع زمین کو مرکزی حکومت کے حوالے کرکے تین سے چار مہینے میں ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا تاکہ وہاں مندر قائم  کیا جاسکے۔ جب کہ سنی وقف بورڈ کو ایودھیہ میں پانچ ایکڑ متبادل زمین فراہم کرنے کا حکم دیا گیا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ ہندو ہمیشہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ مسجد کا اندرونی صحن رام جنم بھومی ہے۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مسلمان اندرونی احاطے میں نماز پڑھتے تھے جبکہ ہندو بیرونی صحن میں پوجا کرتے تھے۔‘

فیصلے کے مطابق: ’یہ ثبوت ملا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندو رام چبوترے اور سیتا رسوئی کی پوجا کرتے تھے۔ اگرچہ ہندوؤں نے رام چبوترے پر پوجا جاری رکھی لیکن انہوں نے گربھ گڑھا کی ملکیت کا دعویٰ بھی کیا ہے۔‘

بھارتی سپریم کورٹ نے نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ’نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ محض انتظام سے متعلق ہے۔ آرکیالوجی رپورٹ کی بنیاد پر دلائل دیئے گئے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی دستاویزات شک و شبے سے بالاتر ہیں اور اس کی تحقیق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے فیصلے کے بعد کہا کہ ’ہم فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں اور جلد اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔‘

دوسری جانب ہندو مہا سبھا کے وکیل ورون کمار سنہا نے اس فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے تنوع میں اتحاد کا پیغام دیا ہے۔‘

فیصلے کے بعد کچھ وکلا نے عدالت عظمیٰ کے احاطے میں ’جے شری رام‘ کے نعرے بھی لگائے، جنہیں دیگر وکلا نے روک دیا۔

 ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور ایک ٹویٹ میں کہا: ’انصاف کے ایوانوں نے عشروں سے جاری ایک معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹایا ہے۔ تمام فریقین اور مختلف نقطہ نظر کے اظہار کے لیے مناسب وقت اور موقع فراہم کیا گیا۔ اس فیصلے سے عدالتی عمل پر عوام کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگا۔‘

اس فیصلے پر تنقید کرنے والے لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر دبیش آنند نے فیس بک پر سوال کیا ’چونکہ سپریم کورٹ نے  کہاہے کہ بابری مسجد کو مسمار کیا جانا غیر قانونی تھا، تو کیا عالت نے حکومت کو مسجد کی تباہی میں ملوث تمام بالواسطہ اور بلاواسطہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی دیا؟ یا وہ بزدل جانتے ہیں کہ تمام مجرمان اب حکومت میں شامل ہیں۔ کیا اب اسے(بابری مسجد کیس)  مجرم کے بغیر جرم کے طور پر دیکھا جائے گا؟ 

ملک بھر میں سکیورٹی سخت

فیصلہ آنے سے سے قبل ایودھیہ سمیت پورے ملک میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ ایودھیہ میں متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی، جب کہ متنازع جگہ اور اس کے اردگرد 20 ہزار فوجی تعینات کر دیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے مبینہ طور پر پانچ سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا۔

ریاست اترپردیش میں پیر تک تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ ایودھیہ میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔

فیصلے سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی کی جیت اور کسی کی ہار کے طور پر نہ لیا جائے۔‘

دوسری جانب اتر پردیش کے وزیراعلیٰ ادتیہ ناتھ نے بھی ریاست کے عوام سے اپیل کی کہ ’عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو، اسے قبول کریں اور ہر قیمت پر ریاست میں امن بر قرار رکھیں۔‘

مقدمہ دراصل ہے کیا؟

1992 میں ہندو قوم پرستوں کی جانب سے ایودھیہ میں بابری مسجد کو منہدم کیے جانے کے واقعے کے بعد ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیہ میں 1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔

بہت سے ہندوؤں اور ہندو مذہبی رہنما‌‍‌‌ؤں کا دعویٰ ہے کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیہ میں ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی۔

ہندوؤں کا موقف تھا کہ ’یہ مقام ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور اس دعوے کی توثیق 2003 میں ہونے والے محکمہ آثارِ قدیمہ کے سروے سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ جس مقام پر 16ویں صدی میں بابری مسجد قائم کی گئی تھی وہاں ایک مندر ہوا کرتا تھا۔‘

رواں برس مئی میں وزیراعظم نریندر مودی کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد اس معاملے نے دوبارہ سر اٹھایا، جب مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بابری مسجد کے منہدم کیے جانے کے مقام پر ایک نیا مندر تعمیر کرنے کی مہم شروع کی تھی۔

یہ مقدمہ تین فریقین کے درمیان زمین کے حقوق کا تنازع ہے، جن میں مسجد کا نمائندہ ریاستی سنی وقف بورڈ، رام کے عقیدت مند جو اس مقام پر عارضی طور پر مندر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور بھگوان رام  کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ وکلا شامل ہیں۔

بھارتی قوانین کے مطابق ہندو دیوتا کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں جبکہ ان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔

6 دسمبر 1992 کو لی گئی اس تصویر میں ہندو نوجوان بابری مسجد کی دیوار کو مسمار کر رہے ہیں۔  (اےا یف پی)


2002-03 میں بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے اس مقام پر کھدائی کی تھی۔ اس کی 574 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بابری مسجد سے پہلے اس جگہ پر پائے جانے والے  واحد آثار مغربی کنارے کے ساتھ ایک بڑی دیوار اور مرکزی حصے کے اُس پار 50 چھوٹے ’ستونوں کی بنیادوں‘ پر مشتمل ہیں۔

رپورٹ کے آخر میں محکمہ آثارِ قدیمہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک ’بڑے پیمانے پر تعمیر‘ کا ثبوت ہے اور اس وجہ سے یہاں ماضی میں ممکنہ طور پر بھگوان رام کا مندر موجود ہو سکتا تھا، تاہم غیر جانب دار مبصرین نے محکمہ آثارِ قدیمہ کے نتائج پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’محکمہ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ میں اصل شواہد کسی قدیم مندر کی طرف اشارہ نہیں کرتے، کیوں کہ اگر یہ مندر ہوتا تو اس میں کم از کم ایک چوکور بنیاد ضرور موجود ہوتی، لیکن موجودہ شواہد اس امکان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس مقام پر ایک بڑی مسجد موجود تھی۔‘

دو مبصرین نے 2010 میں ایک علمی مقالہ بھی شائع کیا جس میں کہا گیا: ’یہ ظاہر ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ منہدم مسجد کے نیچے کسی مندر کی باقیات کو دریافت کرنے کے تصور کے تحت ہی کام کر رہا تھا، یہاں تک کہ اس مفروضے کے مطابق ہی ثبوتوں کو بھی منتخب کیا گیا تھا۔‘

اسی سال اس معاملے پر سماعت کرنے والی الہ آباد ہائی کورٹ نے اس جگہ کو قانونی چارہ جوئی کرنے والے تینوں فریقین کے مابین تقسیم کرنے کی سفارش کی تھی- یہ اُسی فیصلے کی اپیل تھی، جس پر اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے۔

آثارِ قدیمہ کا اہم ترین تنازع

اس سے قبل ’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے 2003 کے ایک آزاد مبصر نے بتایا تھا کہ عدالت کے فیصلے سے قطع نظر، اس کیس میں سائنسی شواہد پر الجھن نے بھارت میں علم آثارِ قدیمہ کی ساکھ پر سایہ ڈال دیا ہے۔

دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی کی پروفیسر سپریہ ورما کا کہنا تھا کہ ایودھیہ کے کیس کو آثارِ قدیمہ کا اہم ترین تنازع کہا جا سکتا ہے، مگر ’بھارت امریکہ اور یورپ کی طرح نہیں ہے جہاں لوگوں کو بہتر معلومات ہیں کہ آثارِ قدیمہ ہمیں کیا بتا سکتا ہے اور کیا نہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’عدالت میں ایک موقف یہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک سوشل سائنس ہے اور اس میں تشریح کی گنجائش ہے، جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ علم آثارِ قدیمہ ٹھوس سائنس ہے اور مکمل طور پر درست ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہاں مسئلہ ہے۔‘

ڈاکٹر ورما نے کہا: ’یہ بہت مایوس کن ہے اور ایک طرح سے یہ اس علم  پر بے اعتمادی کا باعث بھی بنتا ہے۔‘

کچھ مسلمان تنظیموں نے اس کیس پر شواہد کی بنیاد پر جرح کرنا بند ہی کر دیا تھا اور ریاستی اور ملکی سطح پر بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی کی وجہ سے مطالبہ کیا کہ تازہ فسادات کو روکنے کے لیے اس مسئلے پر عملی طریقہ کار اپنایا جائے۔

’امن کے لیے بھارتی مسلمان‘ کے نام سے سابق سرکاری افسروں اور مسلم دانشوروں پر مشتمل ایک تنظیم نے تجویز دی تھی کہ معاملے کا حل عدالت سے باہر ہی ہو جائے جس میں متنازع جگہ تحفے کے طور پر مقدمہ لڑنے والے ہندوؤں کو دے دی جائے تاکہ وہ اس پر اپنا مندر بنا سکیں۔ تاہم اس کے بدلے میں ’پکی ضمانت‘ دی جائے کہ جو انجام 1992 میں بابری مسجد کا ہوا وہ ملک بھر میں دیگر مساجد کے ساتھ نہ ہو۔

سابق ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضمیرالدین شان نے کہا تھا: ’ہمیں سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر عدالت مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو بھی کیا وہاں مسجد بنانا ممکن ہوگا؟ ملک میں بھڑکتا ماحول دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ ایک خواب ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔‘

’امن کے لیے بھارتی مسلمان‘ تنظیم عدالت میں زیرِسماعت کیس میں خود شامل نہیں تھی اور اس کی تجویز کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی رد کر دیا تھا، جو بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی سرکاری تنظیم ہے۔

بورڈ کے ترجمان نے مذکورہ تنظیم کی تجویز کو ’شکست قبول کر لینا‘ قرار دیا تھا۔

تاہم اس معاملے پر دہائیوں سے جاری بحث کے بعد اب سوال یہی ہے کہ آیا بھارت میں سب لوگ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا