لبنان میں انقلابی تحریک کی علمبردار خواتین

عوامی مارچ، بحث مباحثوں، دھرنوں اور سڑکیں بند کرنے کے عمل میں خواتین بنیادی کردار ادا کررہی ہیں، جس نے مظاہروں کے مقصد اور سمت کو تبدیل کر دیا ہے۔ سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ وہ زیادہ پُر امن ہیں۔

بیروت میں  دیے گئے دھرنے کے  دوران  ایک خاتون، پولیس اہلکار کی  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر  رہی ہیں۔ (تصویر: رچرڈ ہال/ دی انڈپینڈنٹ)

لبنان بھر میں حالیہ چند ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں اور عوامی مارچ، بحث مباحثوں، دھرنوں اور سڑکیں بند کرنے کے عمل میں خواتین بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یعنی ایک ایسا ملک جس میں خواتین کی نمائندگی بے حد کم ہے، وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔

احتجاج میں شریک تعلقات عامہ کی کنسلٹنٹ ماریانہ وہبی کہتی ہیں کہ ’خواتین اس انقلاب کا اہم حصہ ہیں۔ ہم اگلی صفوں میں ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو بااختیار بنا رہی ہیں اور ہم نے امن برقرار رکھا ہوا ہے۔‘

رواں ہفتے بدھ کی شام وہبی نے شہر کے مرکزی چوک میں شمعیں روشن کیں۔ اس موقع پر ہزاروں افراد موجود تھے۔ یہ بڑا مشکل لمحہ تھا لیکن ان مظاہروں میں خواتین کا کردار علامتی ہونے سے بڑھ کر ہے۔ خواتین کے کردار نے مظاہروں کے مقصد اور سمت کو تبدیل کر دیا ہے۔

مظاہروں کی سب سے زیادہ متاثر کن تصویر پہلی رات کو لی گئی تھی۔ یہ تصویر ایک حکومتی وزیر کے محافظوں اور مظاہرین کے درمیان ہاتھاپائی کی تھی۔ وزیر کے ایک محافظ نے مظاہرین پر بندوق تان لی جس کے جواب میں ملاک علوی نامی خاتون نے تیزی سے اس کی ٹانگوں کے درمیان لات رسید کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک کے بدعنوان اور مردانہ برتری کے حامل سیاسی طبقے کے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی اس خاتون کی تصویر فوری طور پر میم بن گئی۔ تصویر کو مخصوص انداز میں پیش کیا گیا اور یہ مزید لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا محرک بن گئی۔

 لیکن خواتین کا مظاہروں پر سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ وہ زیادہ پُر امن ہیں۔ مظاہروں کی پہلی دو راتوں کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جو رات بھر جاری رہیں۔ لیکن تیسرے دن شام کو خواتین کے ایک گروہ نے فیصلہ کیا کہ فریقین کو الگ الگ رکھنے کے لیے انسانی ڈھال بنائی جائے گی۔

انسانی ڈھال کا حصہ بننے والی ایک سرگرم کارکن دانیا عیش کہتی ہیں کہ ’اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح مظاہروں کا سلسلہ بڑھ رہا ہے، خواتین ان کا انتظام سنبھال لیں۔ وہ پرامن مظاہرے چاہتی تھیں اس لیے وہ اگلی صفوں میں آ گئیں تاکہ تشدد کو روکا جا سکے۔‘

وہ اسے خواتین پر مشتمل ’اگلا محاذ‘ کہتی ہیں۔ جھڑپیں فوری طور پر بند ہو گئیں اور آنے والے دنوں میں مظاہروں کا دائرہ پھیل گیا۔ خواتین کے براہ راست اقدام کے بعد تشدد میں کمی کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ تعداد میں لوگ مظاہروں میں شریک ہو سکیں جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔

ماریانہ وہبی کہتی ہیں: ’میرے پاس ایسی خواتین آئیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی آواز بلند نہیں کریں گی۔ ہم نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک قبیلہ تشکیل دیا ہے تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔‘

بیروت میں احتجاج کے دوران مظاہرین نے سڑک بلاک کر رکھی ہے۔ (تصویر: رچرڈ ہال/ دی انڈپینڈنٹ)


ایک ہفتے بعد جب پولیس نے دارالحکومت بیروت کے ارد گرد کے علاقوں میں مظاہرین کی جانب سے سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں زبردستی ہٹانا شروع کیں تو پھر وہی ہوا۔ خواتین کے گروہ اگلی صفوں میں پہنچ گئے اور پولیس پیچھے ہٹ گئی۔

لبنان میں ہونے والے مظاہرے اس سے پہلے ہونے والے مظاہروں سے ایک سے زیادہ انداز میں مختلف ہیں۔ حکومت یا کسی سیاسی رہنما کو ہدف بنانے کی بجائے مظاہرین نے ملک کے پورے بدعنوان طبقے کو ہدف بنایا ہے۔

مظاہروں کا آغاز کئی طرح کے نئے ٹیکس لگانے پر ہوا لیکن اس تحریک کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ شدید مالی بحران اور دہائیوں سے جاری بدعنوانی نے مل کر ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

مظاہرین مسلسل کہتے رہے کہ ان کا مطالبہ بنیادی شہری حقوق سے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن لبنانی خواتین کو یہ حقوق اور بھی کم حاصل ہیں۔ چند حالیہ اصلاحات کے باوجود ملکی قانونی نظام میں ایسے کئی قوانین موجود ہیں جو خواتین کے لیے امتیازی ہیں۔ لبنانی مائیں اپنی شہریت اولاد کو منتقل نہیں کر سکتیں۔ طلاق، جائیداد کے حقوق اور بچوں کی تحویل جیسے مسائل سامنے آنے کی صورت میں فیصلہ مذہبی قانون کے مطابق کیا جاتا ہے جو خواتین کے خلاف بے حد امتیازی ہے۔

ایک مظاہرے میں شامل ہزاروں خواتین نے شمعیں روشن کر رکھی ہیں۔ (تصویر:جوزف کیوان)


لبنان میں کوئی مخصوص قانون نہیں ہے جس کے تحت خاوند کو بیوی سے زبردستی کرنے پر سزا دی جا سکے۔ ملک میں ماں بننے والی خواتین کو دیا جانے والا الاؤنس دنیا میں سب سے کم ہے۔

لبنان کی 128 رکنی پارلیمنٹ میں صرف چھ خواتین ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینیئرنگ کے شعبوں کی افرادی قوت میں خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔

شاید اس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہو کہ عالمی اقتصادی فورم نے 2018 میں صنفی فرق سے متعلق اپنی رپورٹ میں 149 ملکوں میں لبنان کو 140 ویں نمبر پر رکھا۔ اس رپورٹ میں معیشت، تعلیم، صحت اور سیاست میں صنفی مساوات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

لبنان میں خواتین کے حقوق کے معاملے سے بھی اسی طرح نمٹا جاتا ہے جس طرح دوسرے مسائل سے جن کا ملک کو سامنا ہے۔ بامعنی تبدیلی لانےکی بجائے تھوڑی بہت اصلاحات کر کے دراڑوں کو عارضی طور پر ڈھانپ دیا گیا ہے۔ کئی سال سے کسی حل کے بغیر چلے آنے والے مسائل نے خواتین کو سڑکوں پر آنے کی ایک اور وجہ فراہم کر دی ہے۔

دانیا عیش کہتی ہیں: ’میں سمجھتی ہوں کہ ہر عمر اور پس منظر کی خواتین اور طبقات کو احساس ہو گیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے ہر معاملے میں ان کا بہت کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ خواتین ملکی آبادی کا آدھا حصہ ہیں لیکن انہیں دگنے استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

وہبی کہتی کہ ان کی 15 سالہ بیٹی اور اس کی ہم جماعت لڑکیاں بھی ان کے ساتھ مل کر احتجاج کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی اُس لبنان میں نہیں پلے بڑھے گی جہاں وہ پلی بڑھیں۔ اب ایسا لبنان نہیں رہا۔اگر ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس پر آواز بلند کریں گی کیونکہ ہمیں آواز مل گئی ہے۔ یہ توانائی ہمیشہ سے یہاں موجود تھی، ہم نے صرف اس کے اظہار کا راستہ تلاش کیا ہے اور دکھایا ہے کہ اصل میں ہم کون ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین