مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا ختم، پلان بی پر عمل شروع

جے یو آئی ۔ ف سربراہ نے وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ لینے میں ناکامی کے بعد اپنے کارکنوں سے اہم قومی شاہراہیں بند کرنے کو کہہ دیا۔

(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ لینے میں ناکامی کے بعد جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن   نےاسلام آباد میں پچھلے  تیرہ دنوں سے جاری دھرنا ختم کر کے پلان بی پر عمل کرنے کا  اعلان کر دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کی شام دھرنے سے خطاب میں کہا کہ اسلام آباد میں پڑاؤ پلان اے تھا اور اب وہ پلان بی کی طرف جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پلان بی کے تحت  ملک کی اہم شاہ راہیں بند کی جائیں گی۔ ’ہم آج ہی  یہاں سے روانہ ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت سوچ رہی ہے کہ دھرنا ختم ہو گا تو ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن اب صوبوں اورضلعوں میں حکومت کی چولیں ہلیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کوتکلیف سےبچانےکے لیے شہروں سے باہر احتجاج کریں گے۔ ’جہاں جہاں مظاہرہ ہو رہا ہے وہاں مقامی ذمے داروں کا تعین کیا گیا ہے، مشاورت کے ساتھ مقامی سطح پرحکمت عملی طے کی جائےگی۔‘

انہوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایات دیں کہ اہم شاہراہوں کو بند کرتے وقت کسی ایمبولینس یا میت گاڑی کاراستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ ’احتجاج ہماراحق ہے،ایک راستہ روکو گےتو دوسرے راستے سے نکلیں گے۔‘

ایک موقعے پر انہوں نے نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے غرض سے جانے کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا  حکومت انتہائی بداخلاقی سےنوازشریف کوباہرجانےسےروک رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑے قافلے کی رہنمائی کرتے ہوئے 27اکتوبرکو کراچی سے روانہ ہوئے تھے اور سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں سے گذرتے ہوئے 31اکتوبر کو جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد پہنچے تھے۔

جمیعت علما اسلام ف نے اس احتجاجی قافلے کو’ آزادی مارچ ‘کا نام دیا،جس میں ملک بھر سے سیاسی کارکن اور عوام نے شرکت کی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کو دو دن میں مستعفیٰ ہونے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ان کا دوسرا  مطالبہ ملک میں نئے انتخابات  کا تھا۔

اپوزیشن کی دو مرکزی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ان دونوں مطالبوں میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ تھیں تاہم انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دینے سے اجتناب کیا۔

۔ ان جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی رہنماوں نے آزادی مارچ میں خطابات تو کیے۔ لیکن انہوں نے اپنے کارکنوں کو آزادی مارچ سے دور رکھا۔

مولانا فضل الرحمٰن کو آٹھ دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی اور انہی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل رہبر کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کا مقصد آزادی مارچ سے متعلق اہم فیصلے کرنا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے آزادی مارچ ختم کروانے کی خاطر مولانا فضل الرحمٰن سے بات چیت کے لیے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ جس کی سربراہی وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کی۔

حکومتی مذاکاراتی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے درمیان کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں لیکن ان بیٹھکوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

ایک  مرحلے  پر ق لیگ کے چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی  چوہدری پرویز الہٰی نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقاتیں کیں،  تاہم  ان کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔

پچھلے دو ہفتوں کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں متعدد مرتبہ ملک کے امور میں فوج کے کردار پر بھی تنقید کی اور اس پر موجودہ حکومت کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔

پاکستان فوج نے ان الزامات کے ردعمل میں کہا کہ فوج ایک آئینی ادارہ ہے جو حکومت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ فوج الیکشن میں خود نہیں آتی بلکہ بلائے جانے پر سکیورٹی خدمات سر انجام دیتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست