مہلک بیماری میں مبتلا سائنس دان ’دنیا کا پہلا سائبورگ‘ بن گیا

’روبوٹ‘ سائنس دان ڈاکٹر پیٹر سکاٹ مورگن نے 24 دن انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہنے کے بعد رواں ہفتے ریلیز ہونے پر انکشاف کیا کہ ’پیٹر 2.0 اب آن لائن ہو چکے ہیں۔‘

ڈاکٹر پیٹر سکاٹ مورگننے اپنی نئی ویل چیئر کو ’انجنیئرنگ کا بہترین نمونہ‘ قرار دیاہے۔ یہ ویل چیئر انہیں کھڑا ہونے، سیدھا لیٹنے اور حرکت کرنے میں مدد دیتی ہے (تصویر ٹوئٹر)

 

مہلک بیماری میں مبتلا ایک برطانوی سائنس دان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو ’دنیا کے پہلے مکمل سائبورگ میں تبدیل‘ کر دیا ہے۔

2017 میں موٹر نیورون ڈیزیز (ایم این ڈی) کی تشخیص ہونے کے بعد ڈاکٹر پیٹر سکاٹ مورگن نے اپنی تقدیر کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

ایم این ڈی ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اپنے اعصاب پر کنٹرول کھو دیتا ہے۔ 61 سالہ ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ وہ اپنے جسم اور دماغ کو اپ گریڈ کر کے ’دنیا کی تاریخ کے 13 ارب 80 کروڑ سال میں سب سے جدید انسانی روبوٹ (سائبورگ) بننے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘

ڈیون کے علاقے ٹورقوئے سے تعلق رکھنے والے ’روبوٹ‘ سائنس دان نے رواں ہفتے 24 دن انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہنے کے بعد ریلیز ہونے پر انکشاف کیا کہ ’پیٹر 2.0 اب آن لائن ہو چکے ہیں۔‘

پیٹر نے اپنے آن لائن فالورز کو بتایا: ’تمام طبی مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ میرا منی وینٹی لیٹر میری سانس بحال رکھ رہا ہے اور میری سانس فلمی کردار ڈارتھ ویڈر کی سانس سے بھی کم آواز کی ہے۔ میری بولنے کی صلاحیت مصنوعی ہے لیکن یہ میری جیسی ہی سنائی دیتی ہے۔ ابھی بہت سی تحقیق باقی ہے لیکن میرے حوصلے بلند ہیں۔‘

ان مراحل میں متعدد آپریشنز بھی شامل تھے جن میں پیٹر کے معدے تک خوراک پہنچانے کے لیے ایک ٹیوب ڈالی گئی جبکہ مثانے کے ساتھ پیشاب کے لیے ٹیوب اور بڑی آنت کے ساتھ بھی فضلے کے لیے ایک تھیلی منسلک کی گئی تاکہ ان کو کھانے پینے اور باتھ روم جانے کے مسائل نہ ہوں۔

انہوں نے اپنے گلے کا آپریشن کروا کر آواز کے عضو کو بھی نکلوا دیا تکہ تھوک ان کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر سانس نہ روک سکے۔ یہ ان کے مطابق اپنی حقیقی آواز کا ’دہائیوں کی زندگی کے بدلے‘ سودا کرنے جیسا تھا۔

پیٹر مورگن اب مصنوعی آواز پر انحصار کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے جیسا اواتار بھی بنایا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے باڈی لینگوئج میں جواب دیتا ہے۔

ان کی آنکھ میں بھی آئی ٹریکنگ ٹیکنالوجی نصب ہے جو مختلف کمپیوٹرز کو کنٹرول کرنے کے کام آتی ہے۔ انہیں دیکھنے کے لیے بہترین صلاحیت 70 سینٹی میٹر حاصل کرنے کے لیے لیزر سرجریرز سے بھی گزرنا پڑا۔ انہیں کمپیوٹر سکرین کو دیکھنے کے لیے اتنا ہی فاصلہ درکار ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیٹر نے اپنی نئی ویل چیئر کو ’انجنیئرنگ کا بہترین نمونہ‘ قرار دیا۔ یہ ویل چیئر انہیں کھڑا ہونے، سیدھا لیٹنے اور حرکت کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ماہرین نے ان کو بتایا تھا کہ اس سال کے آخر تک ان کی موت واقع ہو سکتی ہے تاہم گذشتہ ماہ انہوں نے کہا: ’میں مر نہیں رہا بلکہ میں بدل رہا ہوں۔ مجھے سائنس سے بہت محبت ہے۔‘

انہوں نے مضحکہ خیز انداز میں کہا کہ وہ مائیکروسافٹ کے مقابلے میں زیادہ اپ ڈیٹس رکھتے ہیں۔

’سائبورگ‘ میں تبدیل ہونے کا ان کا سفر ان کی ویب سائٹ پر درج ہے، جہاں ان کا کہنا ہے کہ ایم این ڈی کو موت کی سزا کے بجائے ’اپ گریڈ‘ ہونے کے ایک موقعے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

’گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی لوگ جو ایم این ڈی میں مبتلا ہیں، شدید معذوری کا سامنا کرتے ہیں، بڑھتی عمر کے ہیں یا اپنی جسمانی مجبوریوں سے آزادی چاہتے ہیں میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہم سب ایک ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہم اس پر فخر کریں گے کیونکہ ہم ’صرف زندہ‘ رہنے سے انکار کرتے ہیں۔‘

پیٹر نے اپنے ساتھی فرانسس کے ساتھ مل کر ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی ہے اور انہوں نے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی مہم ’رائٹ ٹو تھرایو‘ کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے میں مدد کریں تاکہ صحت عامہ کی گائیڈلائنز کو تبدیل کیا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایم این ڈی کے شکار افراد میں سے ایک فیصد سے بھی کم کو سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے بلغم کی صفائی اور ’زندگی کے لیے بہت اہم‘ مدد مل پاتی ہے۔ ’ہمیں اس بارے میں اتنی آواز اٹھانی ہے کہ کاروبار اور بریگزٹ سے زیادہ سنائی دے۔ لمبے عرصے سے ایم این ڈی کی آواز نہیں سنی گئی۔‘

اس رپورٹ میں ایس ڈبلیو این ایس کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس