بلوچستان اور احمدیوں کے بارے میں بھارت کا عالمی پروپیگنڈا بے نقاب

غیر سرکاری ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی تحقیق کے مطابق بھارت کے زیرِ اثر دنیابھرمیں 265 ویب سائٹیں چل رہی ہیں جہاں ایسا مواد پیش کیا جاتا ہے جسے پاکستان کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایک ایسا اخبار جو کب کا ختم ہو چکا ہے (نیویارک مارننگ ٹیلی گراف)

کیا توہینِ مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک آزادیِ خیال کے سخاروف ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے تھے؟

جب آپ اس خبر کو آن لائن تلاش کریں تو کئی ویب سائٹوں پر اس بارے میں معلومات مل جائیں گی، لیکن جب انڈپینڈنٹ اردو نے سیف الملوک صاحب سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا آپ سخاروف ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے ہیں تو ان کا کہنا تھا، ’مجھ سے تو کسی نے اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا، اگر آپ کو پتہ چلا ہو تو مجھے بھی بتا دیں۔‘

تو پھر یہ خبر آئی کہاں سے؟ اس کا ایک ماخذ newyorkmorningtelegraph.com نامی ویب سائٹ ہے، جو بظاہر عام اخباری ویب سائٹوں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

بھارت کے بعض گروپوں سے منسلک ڈھائی سو سے زائد ویب سائٹیں پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا کر عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ خبر گذشتہ روز ایک غیر سرکاری یورپی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے دی۔ اس ادارے کے مطابق بھارت کے زیرِ اثر دنیا کے 55 ملکوں میں 265 ویب سائٹیں چل رہی ہیں، جو دیکھنے میں بالکل عام اخباری ویب سائٹس کی طرح دکھائی دیتی ہیں، اور ان میں دوسرے آن لائن اخباروں کی طرح عالمی سیاست، کھیل، ٹیکنالوجی، شو بز وغیرہ کی خبریں پیش کی جاتی ہیں، لیکن ان سب کے بیچوں بیچ چپکے سے ایسا مواد بھی پیش کیا جاتا ہے جسے پاکستان کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے۔

ہم نے ایسی ہی ایک ویب سائٹ کا جائزہ لیا۔ یہ ویب سائٹ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ اخبار 1839 میں نیویارک میں جاری ہوا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ 1879 میں نیویارک سے مارننگ ٹیلی گراف نامی اخبار نکلنا شروع ہوا تھا، اور اسے شہر کی مناسبت سے بعض اوقات نیویارک مارننگ ٹیلی گراف بھی کہا جاتا تھا، لیکن یہ اخبار 1972 میں بند ہو گیا اور اس کا کبھی کوئی آن لائن روپ جاری نہیں ہوا۔

بظاہر یہ اخبار عام اخباروں کی مانند ہے۔ لیکن اگر اس میں پاکستان کے بارے میں خبریں تلاش کی جائیں تو یہ سرخیاں دکھائی دیتی ہیں:

  • احمدیہ، پاکستان کے لعنت یافتہ مسلمان
  • پاکستان میں توہینِ مذہب کے خلاف کام کرنے والے وکیل سخاروف ایوارڈ کے لیے نامزد
  • بلوچوں کا دنیا کے لیے پیغام – منظم نسل کشی ختم کی جائے
  • وقت آ گیا ہے کہ دنیا پاکستان میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے: ریاض پیر
  • اقوامِ متحدہ میں احمدیوں پر جبر پر مکالمہ
  • پاکستان میں پشتونوں کے خلاف ظلم و ستم پر کانفرنس
  • پاکستان کے گمشدہ افراد کے پوسٹر اقوامِ متحدہ کے سامنے آویزاں

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں آخری چار خبریں ایک ہی دن، یعنی 23 ستمبر کو پوسٹ کی گئیں۔

ہم نے ان خبروں کی حقیقت جاننے کی کوشش تو پتہ چلا کہ ان میں سے اکثر جعلی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، توہین مذہب کے وکیل سیف الملوک سخاروف ایوارڈ کے لیے کبھی نامزد نہیں ہوئے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ میں احمدیوں کے بارے میں کوئی میٹنگ نہیں ہوئی، وغیرہ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح کا ایک اور اخبار ٹائمز آف پرتگال ہے۔ اس کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں قائم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نام کے کسی اخبار کا لزبن میں وجود نہیں ہے۔ اس میں ایک خبر نمایاں ہے کہ ’بلوچ، سندھ اور گلگت بلتستان پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں۔‘

ای یو ڈس انفو لیب نے کہا ہے کہ انہیں اس نیٹ ورک کا اس وقت پتہ چلا جب انہوں نے ای پی ٹوڈے پر تحقیق کی۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ ویب سائٹ انڈین سٹیک ہولڈر چلا رہے ہیں، اور اس کا تعلق سری واستو گروپ سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینکس، غیر سرکاری اداروں اور کمپنیوں سے ہے۔

اسی گروپ کے ایک ذیلی ادارے نے گذشتہ ماہ یورپی پارلیمان کے ارکان کو دورہ کشمیر کی دعوت دی تھی۔ اس وقت یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ ان ارکان کی اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی طرح ایسی جماعتوں سے ہے جو مسلم مخالف جذبات کی حامل ہیں۔

ای یو ڈس انفو لیب نے مزید تحقیق کر کے دنیا بھر میں 265 ایسی ویب سائٹوں کا سراغ لگایا ہے، جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے: ان میں سے اکثر کسی ایسے اخبار کے ناموں پر ہیں جو بند ہو چکا ہے، یا معروف اخباروں کے ناموں کو جوڑ کر ایک نیا نام بنایا گیا ہے۔

  • یہ کئی دوسرے اخباری اداروں سے بھی خبریں لیتے ہیں
  • ان میں بعض اوقات ایک ہی خبر شائع ہوتی ہے
  • یہ ویب سائٹیں پاکستان مخالف مواد شائع کرتی ہیں
  • اکثر ویب سائٹوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی ہیں

ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق اس کارروائی کا مقصد بین الاقوامی اداروں کو منتخب نمائندوں پر اثر انداز ہونا ہے۔ چونکہ یہ مواد مختلف ذرائع سے دستیاب ہوتا ہے اس لیے اس سے تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ خبر دنیا بھر سے آ رہی ہے، اس لیے درست ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی