فضائیہ ہاؤسنگ سکیم: متاثرین کو پیسے تاحال نہ مل سکے

متاثرین تعمیرات رک جانے کے باعث کافی عرصے سے اپنے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے حوالے سے انہیں ابھی تک کوئی حتمی جواب  نہیں دیا گیا ہے۔

اس پراجیکٹ میں پانچ ہزار سے زائد شہری اور اوورسیز پاکستانیوں کی لاکھوں کی سرمایہ کاری شامل ہے(فضائیہ ہاؤسنگ سکیم اشتہار)

کراچی میں پیر کے روز شاہراہ فیصل پر واقع فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے دفتر کے باہر صبح سے رات تک لوگوں نے کافی بڑی تعداد میں احتجاج کیا۔ متاثرین کے مطابق فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی متنازع زمین پر دو سال قبل تعمیرات کا کام رک جانے کے باوجود بھی ان سے بقایا اقساط لینے کا سلسلہ جاری رہا۔

اس پراجیکٹ میں پانچ ہزار سے زائد شہری اور اوورسیز پاکستانیوں کی لاکھوں کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ متاثرین تعمیرات رک جانے کے باعث کئی عرصے سے اپنے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے حوالے سے انہیں ابھی تک کوئی حتمی جواب  نہیں دیا گیا ہے۔

احتجاج کے دوران فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ائیر کموڈور اعجاز احمد اور ائیر کموڈور عبداللہ نے متاثرین کو یقین دہانی کروائی کہ لوگوں کی رقم کچھ وقت میں انہیں واپس مل جائے گی۔

 فضائیہ ہاؤسنگ سکیم سے متاثرہ معاذ اسماعیل جو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں ریئل سٹیٹ ایجنٹ ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پراجیکٹ میں کُل 20 پراپرٹیز سے منسلک ہیں جن میں ان کی ذاتی، خاندان والوں کی اور چند دیگر افراد کی پراپرٹیز بھی شامل ہیں۔

 معاذ کے مطابق ’اس سکیم میں صرف 10 فیصد تعمیرات ہوئیں جنہیں سال 2017 کے اختتام پر پوری طرح روک دیا گیا لیکن اس بات سے لوگوں کو لاعلم رکھا گیا اور جون 2019 تک لوگوں سے بقایا اقساط حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نہ صرف یہ بلکہ جب لوگوں نے پیسے واپس مانگنے شروع کیے تو صرف چھ ماہ پہلے ہمیں یہ بتایا گیا کہ میکزم پراپرٹیز ان کے 50 فیصد کے پارٹنرز ہیں جو سویلین کی پراپرٹیز سے ڈیل کر رہے ہیں اور ان کے دستخط کے بغیر آپ کے پیسے واپس نہیں مل سکتے۔ تب سے اب تک یہ دونوں سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں اور کوئی ہمارے چیک پر دستخط کرنے کے لیے راضی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سکیم کے فراڈ کی وجہ سے 5300 افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ہر فرد تقریباً 30 سے 70 لاکھ روپے پاک فضائیہ ہاؤسنگ سکیم میں جمع کروا چکا ہے۔ ان تمام متاثرین میں سے تقریباً 25 سے 30 فیصد یعنی 1500 سے زائد افراد اوورسیز پاکستانی ہیں جو یا تو پیسے ڈائریکٹ ٹرانسفر کرتے تھے یا پھر اپنے خاندان والوں کے ذریعے بقایا اقساط جمع کرواتے رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاذ نے بتایا کہ ’چھ ماہ پہلے ہمیں اطلاع دے دی گئی تھی کہ اس پراجیکٹ کی تعمیر کو بند کر دیا گیا ہے کیوں کہ یہ زمین غیر قانونی ہے اور لوگوں کو ان کے پیسے واپس کردیے جائیں گے۔ پیسے واپس کرنے کے لیے انہوں نے کچھ لوگوں سے اصل فائلیں اور دستاویزات منگوالیں اور باقی لوگوں کو یہ کہا گیا کہ فی الحال آڈٹ جاری ہے، مکمل ہونے کے بعد آپ سے دستاویزات مانگی جائیں گی اور پیسے واپس کر دیے جائیں گے لیکن اب تک تین بار آڈٹ ہوچکا ہے۔‘

’کل کے احتجاج میں بھی ہمیں یہ ہی کہا گیا کہ آڈٹ جاری ہے اور جنوری کے تیسرے ہفتے تک پیسے لوٹا دیے جائیں گے لیکن ابھی تک اس بات کی کوئی تحریری ضمانت نہیں دی گئی۔‘

اوورسیز پاکستانی مرتضیٰ علی نے اپنے ساتھ دیگر متاثرین کو ان کی رقم اور انصاف دلانے کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ پر ایک گروپ بنایا ہے جس میں تمام متاثرین ایک دوسرے کے مسائل سنتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرتضیٰ نے بتایا کہ ’وہ اس وقت افریقہ میں مقیم ہیں، انہوں نے 2015 میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم میں ایک اپارٹمنٹ بُک کروایا اور وقت پر اس کی اقساط جمع کرواتے رہے۔ سال 2018 کے دوران مجھے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اب اس پراجیکٹ پر تعمیرات نہیں ہوں گی لیکن اس وقت تک میری جانب سے 40 فیصد رقم جمع کروائی جاچکی تھی۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب میں نے اپنی رقم واپس لینے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ مجھے اصل دستاویزات کے ساتھ خود پاکستان آنا ہوگا کیوں کہ افریقہ کے اس حصے میں پاکستان کا سفارت خانہ نہیں ہے۔ اس لیے میں خود دستاویزات لے کر پاکستان آیا۔ اُس وقت انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ 20 دن کے اندر آپ کی رقم آپ کو واپس کر دی جائے گی لیکن وہ 20 دن آج تک مکمل نہیں ہوئے۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے بھی جمعے کے روز ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’ڈی ایچ اے ہاؤسنگ سوسائٹی اور فضائیہ ہاؤسنگ سکیم اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک درد ناک کہانی ہے، لیکن وہ اس بات کی یقین دہانی کروائیں گے کہ ہر اوورسیز پاکستانی کو ان کے پیسے ضرور واپس ملیں۔‘

معاملے کا پس منظر

پاک فضائیہ ہاؤسنگ سکیم پراجیکٹ کراچی کا افتتاح فروری 2015 میں ہوا جس کے تحت 50 فیصد گھر ائیر فورس افسران یا ائیرمین اور دیگر 50 فیصد سویلین یعنی عام شہریوں کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ اس پراجیکٹ کا آغاز دو کمپنیوں کے اشتراک سے ہوا جن میں پاکستان ائیر فورس (پی اے ایف) کا ڈائریکٹوریٹ آف سٹیٹ پراجیکٹس اور پارٹنرشپ کمپنی میکزم پراپرٹیز شامل ہیں۔

میکزم پراپرٹیزاس پراجیکٹ میں 50 فیصد کی حصے دار ہے اور سویلینز یعنی عام شہریوں کی تمام پراپرٹی کی ڈیلنگ ان کے ذمے ہے۔ 

فروری 2015 میں اس پراجیکٹ کی پہلی سائٹ کے لیے بولی کا اعلان کیا گیا جس کی لوکیشن کراچی میں واقع ناردن بائی پاس کے قریب ڈریم ورلڈ ریزارٹ سے متصل ہے۔ پہلے فیز میں لگژری اپارٹمنٹس کا اعلان کیا گیا جن کی مالیت 50 لاکھ کے قریب تھی۔ اسی پراجیکٹ کے دوسرے فیز کا اعلان فروری 2017 میں سائٹ 2 پر کیا گیا جس کی لوکیشن ناردن بائی پاس سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور اس سائٹ پر 65 لاکھ سے سوا کروڑ کی مالیت کے تین طرح کے لگژی ویلاز تعمیر کیے جانے تھے۔

فروری 2017 میں میکزم پراپرٹیز نے سندھ حکومت کے محکمے ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا جس کا متن تھا کہ 26 دسمبر 2013 کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مختلف اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپنی زیر اخیتار زمین پر تعمیرات کرنے کا اعلان کیا اور تمام مالکان سے اپنے دستاویزات جمع کروانے کی گزارش کی۔

اس اشتہار کی مد میں پی اے ایف سٹیٹ پراجیکٹس نے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی تقریباً 400 ایکڑ اراضی کے لیے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو درخواست کی کہ اس پراپرٹی کو ملیر ماسٹر پلان کی زمین کے ساتھ تبدیل یا ایڈجسٹ کیا جائے، جس کے بعد 19 جولائی 2015 کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے لیے نئی زمین الاٹ کی گئی اور یہ شرط رکھی گئی کہ پچھلی زمین ایم ڈی اے کے حوالے کر دی جائے گی۔

پانچ اگست 2015 کو اس تبادلے کی تمام دستاویزات متعلقہ افسران کے حوالے بھی کر دی گئی تھی۔ میکزم کے مطابق اس تبادلے کی تمام قانونی شرائط مکمل ہونے کے بعد میکزم پراپرٹیز اور پی اے ایف سٹیٹ ڈویلپمنٹ کی جانب سے مختلف نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اشتہارات دیے گئے۔ اس دوران کافی بڑی تعداد میں لوگوں نے پلاٹ بک کروائے اور لاکھوں روپے کی ڈاؤن پیمنٹ جمع کروائیں۔


فروری 2017 میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ڈیڑھ سال قبل جاری کی گئی نئی زمین کی دستاویزات کو شرائط پوری نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا۔ کیس کا فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اس لیے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم ایک متنازع زمین ہے۔ اس دوران ندیم احمد نامی شہری نے بھی پی اے ایف ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر الزام لگایا کہ وہ ان کی زمین کے ساتھ مداخلت کر رہے ہیں۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے مارچ 2018 میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کراچی (ایف ایچ ایس) اور سندھ کے بورڈ آف ریونیو اور لینڈ یوٹیلیٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے کیوں کہ سندھ کے اراضی اور محصولات کے محکموں کے عہدیداروں پر ایف ایچ ایس انتظامیہ کو غیر قانونی طور پر زمین فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اوورسیز پاکستانیوں سمیت پانچ ہزار سے زائد متاثرین اس معاملے میں کافی غم و غصے کے شکار ہیں۔ متاثرین کے مطابق تعمیرات رک جانے کے باوجود بھی ان سے قسطیں وصول کرنا ناانصافی ہے اس لیے انہوں نے فوری طور پر رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان