’بے رحم اور ظالم‘: سری لنکن صدر کے انتخاب سے اقلیتوں کو تشویش

صدر گوتابھایا راجا پاکسا کو خانہ جنگی کے دوران تامل ٹائیگرز باغیوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سمیت عالمی برادری کی جانب سے کئی جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔

رواں ماہانتخابات سے قبل    گوتابھایا راجا پاکسا   ایک تقریب میں (اے پی)

جہاں سری لنکا میں اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سنہالی باشندے گوتابھایا راجا پاکسا کے صدراتی انتخابات جیتنے پر جشن میں شامل ہونے کے لیے قدیم شہر انورادھا پور کا رخ کر رہے ہیں وہیں سری لنکا کی اقلیتی برادریاں، جنہوں نے نئے صدر کے خلاف ووٹ دیے تھے، اس صورت حال سے تشویش کا شکار ہو گئی ہے۔

سنہالی بادشاہوں کے قدیم دور میں بدھ مت کے دارالحکومت انورادھا پور کی سلطنت کے باشندے تصور کیے جاتے ہیں اور یہ برادری موجودہ سری لنکن جزیرے کی کل آبادی کا 70 فیصد ہے۔

راجا پاکسا کو ہفتے کے روز ہونے والے انتخابات میں بدھ سنہالیوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دے کر فتح سے ہمکنار کرایا تھا۔ ان کو تین دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران تمل ٹائیگر باغیوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سمیت عالمی برادری کی جانب سے کئی جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔

سابق فوجی سربراہ راجا پاکسا 2005 سے 2015 کے دوران وزیر دفاع بھی رہے، نے انتخابات میں فتح کے بعد پہلی بار قوم سے صدر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے خود کو ایک بدھ مت اور قوم پرستی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی۔

تقریر میں ان کا کہنا تھا: ’ہمیں شروع سے ہی معلوم تھا کہ میری فتح کے پیچھے اس ملک کی سنہالی بدھ برادری ہو گی۔ میں جانتا تھا کہ سنہالی بدھ مجھے ووٹ ڈالیں گے تاہم مجھے توقع تھی کہ تمل اور مسلمان بھی میری فتح کا حصہ ہوں گے۔ لیکن میری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود، آپ کے نئے صدر کی حیثیت سے میں آپ سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ اس ملک کے مستقبل اور اس کی ترقی کے لیے مجھ سے ہاتھ ملائیں۔‘

راجا پاکسا کی افتتاحی تقریر نے اس جزیرے کے اقلیتی تمل اور مسلمان برادریوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے جو بدھ انتہا پسندوں کے اقلیت مخالف حملوں کے خدشے سے پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ نو منتخب صدر کے بڑے بھائی مہندا راجا پاکسا کے دور حکومت میں بھی یہ برادریاں عدم استحکام کا شکار تھیں۔

سری لنکا کے مسلم اکثریتی مشرقی صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ایم زیڈ اے احمد نے، جو انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا پورا نام نہیں بتانا چاہتے، کہا: ’ہمیں نئے صدر کی افتتاحی تقریر سے ڈر محسوس ہو رہا ہے۔ مشرقی علاقوں میں اقلیتی برادریوں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمل اور مسیحیوں نے بھی راجا پاکسا خاندان کی اقتدار میں واپسی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہمیں اس کی سزا ملے گی؟‘

تقریباً ایک دہائی تک راجا پاکسا خاندان وسیع تر اختیارات کے ساتھ اقتدار کا حصہ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق صدر مہند راجا پاکسا نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنے چھوٹے بھائی گوتابھایا کو وزارت دفاع اور شہری امور کی وزارتوں کے عہدے پر تعینات کیا۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی چمل کو پارلیمنٹ کا سپیکر اور ایک اور چھوٹے بھائی بازل کو اقتصادی ترقی کی وزارت کا قلمدان سونپا۔

دیگر رشتے داروں میں راجا پاکسا نے اپنے بھانجے اور کزنوں کو بھی وزرائے اعلیٰ، سفیروں اور قومی ایئر لائنز کے چیئرمین کے عہدے سمیت اہم حکومتی ذمہ داریاں سونپی۔

85 فیصد سے زیادہ تمل اور مسلمانوں نے راجا پاکسا کے حریف ساجتھ پریمداس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پریمداس بھی سنہالی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک سابق وزیر اعظم کے بیٹے ہیں جنہیں 1993 میں تمل ٹائیگر نے خودکش حملے میں قتل کر دیا تھا۔ زیادہ تر تمل افراد نے راجا پاکسا خاندان کی ممکنہ واپسی کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ 

سابق صدر اور گوتابھایا کے بھائی مہند راجا پاکسا نئی حکومت کے تحت وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار میں واپس آئیں گے۔ مہند راجا پاکسا کے دس سالہ دور حکومت کے آخری حصے میں ان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی جیسے الزامات کا سامنا تھا۔

ان کے دور میں آئین میں تبدیلیاں کی گئیں جس سے مہند کو تیسری مدت کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔

تین بھائیوں کے اہم ترین عہدوں پر رہنے سے ان پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے کہ بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز راجا پاکسا خاندان کی جیب میں براہ راست جا رہے ہیں جبکہ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اس وقت کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافیوں کو لاپتہ یا ہلاک کرا دیا تھا۔ راجا پاکسا خاندان ان الزامات سے انکار کرتا آیا ہے۔

ان الزامات میں 2009 میں ایک معروف اخبار کے ایڈیٹر لسانتھ ویکرماٹونگے کا قتل بھی شامل ہے۔ ویکرماٹونگے کی موت کے بعد شائع ہونے والے ان کے اداریے میں انہوں نے اپنی موت کا ذمہ دار راجا پاکسا خاندان کو ٹھہرایا تھا۔

تمل اور مسلم برادریاں صدر راجا پاکسا کو ووٹ دینے سے بعض رہیں کیونکہ  وہ ان کے خاندان کی طویل حکمرانی کے دوران بدھ انتہا پسندوں کے حملوں کا بار بار شکار رہے تھے۔

بدھ مت کی پیروکار انتہا پسند تنظیم بوڈو بالا سینا (بی بی ایس) کو عیسائی مخالف اور مسلم مخالف فسادات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس تنظیم کو مبینہ طور پر راجا پاکسا کی حمایت حاصل ہے۔

مسلم کونسل سری لنکا کے نائب صدر ہملی احمد کا کہنا ہے: ’مسلمانوں کی جانب سے راجا پاکسا کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انتہا پسند ان کے انتہائی قریب نظر آئے۔‘

انہوں نے کہا: ’ملک میں ہر ایک نسل پرست ان کے ساتھ تھا لہٰذا انہیں (اقلیتی برادریوں کو) خدشہ تھا کہ منتخب ہونے پر نسل پرستوں کا اگلی حکومت پر مکمل کنٹرول ہو گا۔ اب یہ صدر راجا پاکسا پر منحصر ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظات کیسے دور کرتے ہیں اور سری لنکا کو کیسے متحد رکھتے ہیں۔‘

راجا پاکسا نے پریمداس کو کانٹے کے مقابلے کے بعد شکست دی اور ان کو حاصل ہونے والے 52.25 فیصد ووٹ بنیادی طور پر سنہالی ووٹ بینک سے آئے تھے۔

رواں سال ایسٹر کے موقعے پر ایک مقامی دہشت گرد کے تباہ کن حملے میں آٹھ برطانوی شہریوں سمیت 258 افراد ہلاک ہوئے تھے جس نے راجاپاکسا کے صدارتی انتخابات میں فتح کے لیے موقع فراہم کیا۔

انہوں نے ایک مضبوط سنہالی بدھ قوم پرست مہم چلائی جس میں بہتر سکیورٹی فراہم کرنے اور دہشت گردی کو کچلنے کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن اپنی مہم کے آغاز کے بعد سے ہی اقلیتوں اور اکثریت سنہالیوں کے مابین عدم اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو گئی۔

شمالی جافنا سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے ایک 22 سالہ طالب علم نادن کا کہنا ہے کہ پیر کو صدر کی حلف برداری کی تقریب کے بعد تملوں کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’میں نے اپنے فیس بک پیج پر ان دوستوں کو اَن فرینڈ کر دیا جنہوں نے آج گوتابھایا کی جیت پر ان کو مبارک باد کے پیغامات بھیجے تھے۔ مجھے بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ مجھے اب ان پر اعتماد نہیں ہے۔ ہم ایک بار ایسی زندگی گزار چکے ہیں۔ ہمارے والدین اس تکلیف سے گزر چکے ہیں اور ہم دوبارہ اغوا یا قتل نہیں ہونا چاہتے۔‘

اسی طرح کے جذبات شمالی سری لنکا میں بھی پائے جاتے ہیں جو تمل ٹائیگروں کا گڑھ تھا جنہں راجا پاکسا نے 2009 میں کچلنے میں مدد دی تھی۔

راجا پاکسا اور ان کے بھائی کو صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت باغیوں اور عام شہریوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ماروائے عدالت قتل اور جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ راجا پاکسا نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

تمل ٹائیگر باغیوں کے سابقہ دارالحکومت کِلنوچی میں تملوں کو خوف ہے کہ نئے صدر کی قوم پرستی کی پالیسیاں اقلیتوں کے ساتھ دوبارہ زیادتی کا سبب بن سکتی ہیں۔

42 سالہ گھریلو خاتون انولہ، جن کے شوہر جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے، کہتی ہیں: ’میں امید کرتی ہوں کہ یہ ہمیں دوبارہ ماضی کی طرف نہیں دھکیلا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم گوتابھایا کو ایک بے رحم اور ظالم انسان کے طور پر جانتے ہیں جس کو بدھ انتہا پسندوں نے گھیر رکھا ہے جنہوں نے اقلیتی برادریوں تمل، عیسائیوں اور مسلمانوں سے نفرت اور ان کے قتل کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہوں۔‘

کِلنوچی میں 87 فیصد سے زیادہ ووٹ راجا پاکسا کے حریف پریمداس کو ملے۔

ملک بھر میں تمل ووٹ کا اکثر حصہ پریمداس کو پڑا ہے خاص طور پر تب جب تمل قومی سیاسی جماعت ’تمل نیشنل الائنس‘ (ٹی این اے) نے انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ٹی این اے کے ترجمان ایم اے سومنتھیرن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جن لوگوں نے راجا پاکسا کو ووٹ نہیں دیا ہے ان میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے کیونکہ میڈیا اور راجا پاکسا کی حمایت کرنے والے افراد نے نسل پرستانہ لکیر کھینچ دی ہے۔ ان کی تقریبات میں بھی نسل پرست عنصر پایا جاتا ہے۔‘

راجا پاکسا کی فتح کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹوں کی بھرمار ہو گئی ہے جس میں پریمداس کو ووٹ دینے والے تملوں پر ’نسل پرستانہ ووٹ‘ ڈالنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے جس کے سبب تمل اور سنہالیوں کے مابین مزید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

سومنتھیرن نے مزید کہا: ’تشویش کی بات یہ ہے کہ راجا پاکسا جیت گئے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں راجا پاکسا کے ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر ان کے طرز عمل کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے اور ان انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا