ملکی سیاست کو لیڈرشپ فراہم کرنے والی طلبہ یونین پر پابندی کیوں؟

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق سٹوڈنٹ لیڈر کامران خان بنگش کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک میں طلبہ یونین میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بالکل نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں ان کو سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔

عروج اورنگزیب  کی جوشیلے انداز میں سنائی گئی  شاعری سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ (ویڈیو سکرین گریب)

لاہور میں منعقد ہونے والے فیض احمد فیض فیسٹیول میں چند نوجوان طلبہ اکٹھے تھے، جہاں ایک طالبہ عروج اورنگزیب نظم ’سرفروشی کی تمنا‘ پرجوش اور اونچی آواز میں پڑھ رہی تھیں جبکہ دیگر طلبہ ان کی آواز سے آواز ملا رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے جوشیلے انداز میں سنائی گئی یہ شاعری سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ یہ طلبہ اصل میں 29 نومبر کو ملک بھر میں طلبہ کے حقوق کے لیے ہونے والے ’سٹوڈنٹ سولیڈیٹریٹی مارچ‘ کے لیے مہم چلا رہے تھے۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے ساتھ ایک اور بحث بھی چھڑ گئی کہ کیا ملک میں گذشتہ کئی دہائیوں سے عائد طلبہ یونین پر پابندی ہٹائی جانی چاہیے یا نہیں؟

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایسے نوجوان سیاسی رہنماؤں سے بات کی، جو ماضی میں طلبہ سیاست سے وابستہ رہے اور آج سیاسی جماعتوں میں اہم عہدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

میاں صہیب الدین کاکاخیل کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے ہے اور وہ زمانہ طالب علمی سے جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہیں۔

آغاز میں وہ پشاور یونیورسٹی سے جمعیت کے ناظم بنے، اس کے بعد وہ پشاور کیمپس (جس کے اندر مختلف جامعات ہیں) کے ناظم رہے، بعد میں صوبے اور کچھ سالوں بعد وہ اس تنظیم کے پورے ملک کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ میاں صہیب آج کل جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سفر کے حوالے سے میاں صہیب کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک ایسی نرسری ہے جو ملک کے طلبہ کو شعور فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ یونین طلبہ کی فکری نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

ان کے مطابق طلبہ یونین ہی ایک ایسا فلیٹ فارم تھا، جس سے منتخب کابینہ مختلف مواقع پر طلبہ کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی تھی، لیکن جب سے طلبہ یونین پر پابندی لگی ہے، سرکاری جامعات میں طلبہ کے لیے سہولیات کا فقدان ہے جبکہ دوسری جانب ان کی فیسیں غریب تو کیا ایک متوسط طبقے کے طالب علم کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’جمہوریت کا مقصد صرف انتخاب یا ووٹ ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ انتخابات میں ہر کوئی ایک سوچ اور نظریے کے ساتھ ساتھ اپنا پروگرام اور وژن لوگوں کے سامنے رکھتا ہے۔ یہی تربیت طلبہ یونین میں ہوا کرتی تھی، جو ملک کی سیاست کو لیڈرشپ مہیا کرتی تھیں لیکن آج کل کی سیاست کو اگر دیکھا جائے تو اس سے مڈل کلاس، تعلیم یافتہ اور نظریاتی کارکن باہر کر دیا گیا ہے اور چند خاندانوں کی اس پر اجارہ داری ہے۔‘

حکومت جامعات میں کس طرح رِسک لے کر طلبہ یونین کو بحال کرے؟

اس سوال کے جواب میں میاں صہیب کا کہنا تھا: ’یہ پابندی کے لیے دلیل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ لڑائیاں تو ملک کے عام انتخابات میں بھی ہوتی ہیں تو کیا عام انتخابات منعقد کرنے پر پابندی لگائی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ یونین کی بحالی کے لیے حکومت ہوم ورک کرے اور اس کے لیے ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے جس کی مدد سے طلبہ تنظیموں کے مابین لڑائی جھگڑوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یونین کو ایک بہتر مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کے لیے جو بھی جدوجہد کرے گا ہم ان کا ساتھ دیں گے۔‘

کامران خان بنگش پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی اور مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر جمہوری معاشرے میں طلبہ یونین کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں طلبہ یونینز کو بہت زیادہ سیاسی بنایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دیگر ممالک میں طلبہ یونین میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں طلبہ یونین کو سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے تعلیمی ماحول خراب ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’طلبہ یونینز کی بحالی سے پہلے معاشرے اور طلبہ میں یہ آگاہی بہت ضروری ہے کہ انہیں صرف طلبہ کے جائز حقوق کے لیے استعمال کیا جائے اور طلبہ یونین کسی ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ ہوں۔‘

طلبہ یونین پر پابندی کب اور کیوں لگی  تھی؟

پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی جنرل ضیا الحق نے 1984 میں لگائی تھی۔ جناح انسٹی ٹیوٹ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمیت طلبہ نے بنیادی کردار ادا کیا تھا جو بعد میں ضیا الحق کے ساتھ مل کر دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں پر کریک ڈاؤن کے لیے منصوبہ بنا رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اسی تنظیم نے جامعات میں ایک ’ڈنڈہ بردار‘ فورس بھی قائم کی تھی اور بعد میں مختلف طلبہ تنظمیوں کے درمیان لڑائیاں اس حد تک پہنچ گئیں کہ جامعات کے اندر اسلحہ کلچر بھی پروان چڑھا اور انہی طلبہ تنظیموں کو سیاسی پارٹیاں قومی سطح پر اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے لگیں۔

اس رپورٹ کے مطابق طلبہ تنظیموں کے درمیان جھڑپیں اتنی بڑھ گئیں کہ 1982 سے لے کر 1988 تک 80 کے قریب طلبہ رہنما ہلاک ہوئے۔

اس مقالے کے مطابق جمعیت کو ریاستی سپورٹ حاصل ہونے کے باوجود ان کے مخالف طلبہ تنظیموں کے الائنس، جس میں’نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ جو پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم ’پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن‘ میں ضم ہوگئی اور متحدہ قومی موومنٹ کی طلبہ تنظیم ’آل پاکستان متحدہ سٹوڈٹنس آرگنائزیشن‘ یعنی اے پی ایم ایس او شامل تھی، نے 1983 میں اسلامی جمعیت طلبہ کو شکست دے کر یونین کے انتخابات جیت لیے۔

رپورٹ کے مطابق جنرل ضیا الحق کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اب شاید یہ طلبہ ان کے خلاف کوئی تحریک شروع نہ کریں تو انہوں نے اگلے سال 1984 میں طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔

پابندی کے بعد اس مقالے میں طلبہ یونین کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوگئیں تو طلبہ یونین سے پابندی ہٹائی گئی لیکن پابندی ہٹانے کے بعد فوراً کراچی یونیورسٹی میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور اے پی ایم ایس او کے مابین پُر تشدد جھڑپیں ہوئیں اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انتظامیہ کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو بلانا پڑا۔

اس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور مسلم لیگ ن کی طلبہ تنظیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مابین پُر تشدد لڑائیاں ہوئیں جس کے بعد 1992 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلبہ تنظیوں کے حوالے سے ایک عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے پابندی لگا دی اور جامعات کو پابند بنا دیا کہ وہ نئے آنے والے طلبہ سے ایک تحریری معاہدے پر دستخط کروائیں گے جس میں وہ طلبہ سے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف لیں گے۔

اس کے بعد 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی تو اس نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا وعدہ کیا لیکن یونینز اپنی اصلی حالت میں بحال نہیں ہوئیں۔ اسی طرح 2017 میں سینیٹ میں ایک بل بھی پاس کیا گیا تھا جس میں طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس