سات بسوں کے صرف چار ڈرائیور، خواتین کنڈیکٹرز بھی فارغ

منصوبے کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ گلابی بسیں چلانے سے ان کو پچھلے آٹھ مہینوں میں 40 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

پنک بسیں جاپان حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کی حکومت کو خواتین کے لیے تحفے کے طور پر دی گئی تھیں۔ (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

مردان میں رواں سال اپریل میں خواتین کے لیے جاپان حکومت کی مدد سے سات گلابی (پِنک) بسوں کی خصوصی سروس شروع کی گئی تھی جو اب بند ہونے کے دہانے پر ہے۔

منصوبے کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ گلابی بسیں چلانے سے ان کو پچھلے آٹھ مہینوں میں 40 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

پنک بسیں جاپان حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کی حکومت کو خواتین کے لیے تحفے کے طور پر دی گئی تھیں جسے مردان اور ایبٹ آباد میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

 جاپان حکومت نے اسے ’سکورا بس‘ (Sakura bus) کا نام دیا ہوا ہے۔ جاپان میں سکورہ ایک خوبصورت اور مہکتے پھول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسوں پر بھی چیری بلوسم (سکورہ) کے پھول بنائے گئے ہیں لیکن محکمہ ٹرانسپورٹ پشاور نے بسوں کا رنگ گلابی ہونے کی وجہ سے اسے پنک بس (گلابی بس) کا نام دیا ہے۔

پنک بسوں کا نو اپریل 2019 کو مردان میں باقاعدہ طور پر افتتاح کیا گیا تھا لیکن چند دن ہی بعد یہ بسیں اس روٹ پر آہستہ آہستہ کم نظر آنے لگیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ایک متعلقہ اہلکار نے بتایا کہ ٹرانس پشاور کے ساتھ مشترکہ طور پر تین کنٹریکٹرز بیزٹک، فورٹ اور نیو خیبر کار رینٹل سروسز نے مل کر معاہدہ کیا تھا کہ پنک بسیں ہفتے میں سات دن مقررہ روٹ پر چلیں گی اور ہر ایک بس روزانہ 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ جب کہ ان بسوں میں صرف خواتین سوار ہوں اور بس میں کنڈیکٹر بھی لازمی طور پر خاتون ہوں گی۔

معاہدے کے تحت مقررہ روٹ پر سات بسیں ہفتے میں سات دن چلنی تھیں لیکن اب مقررہ روٹ پر کوئی بس نہیں چل رہی، البتہ جرمانوں سے بچنے کے لیے ایک یا دو بسیں یونیورسٹی گیٹ کے سامنے چھٹی کے وقت تک کھڑی رہتی ہیں اور باقی بسیں گجر گڑھی ملاکنڈروڈ پر اپنے سٹینڈ پر موجود ہوتی ہیں، جب کہ ہفتے اور اتوار کو تمام بسیں اپنے سٹینڈ پر موجود ہوتی ہیں۔ ان سات بسوں کے لیے صرف چار ڈرائیورز رکھے گئے ہیں جب کہ خواتین کنڈیکٹروں کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسے دیے گئے روٹ پر بسوں کو چلانے سے روزانہ ہزاروں روپے نقصان ہوتا ہے اور خواتین سواریاں اتنی نہیں ہوتیں کہ اس سے اخراجات پورے ہوجائیں۔

پنک بسیں خیبرپختونخوا کے محکمہ ٹرانس کی نگرانی میں چلتی ہیں، جو اس کے علاوہ بی آر ٹی اور زوبائیسیکل کی بھی نگرانی کرتا ہے۔

(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)


ٹرانس پشاور کا دعویٰ تھا کہ ملک میں پہلی بار صرف خواتین کے لیے صوبہ خیبرپختونخوا میں پنک بسیں چلائی جارہی ہے لیکن اب یہ صرف دعویٰ ہی رہ گیا اور صحیح طریقے سے منصوبہ بندی نہ کرنے پر اسے ناکامی کا سامنا ہے۔

مردان میں پنک بسوں کو چلانے والے کمپنی کے سپروائزر خواجہ محمد نے بھی اکثر بسیں کھڑی کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے اندپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر پنک بس معاہدے کے مطابق چلائی جائے تو روزانہ ایک بس کمپنی کو دو سے ڈھائی ہزار روپے نقصان میں پڑتی ہے اور آٹھ ماہ میں کمپنی کو 40 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

انہوں نے وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مردان شہر میں اکیلی خواتین گھر سے باہر زیادہ نہیں نکلتیں کہ اس سے ہماری سواریاں پوری ہو جائیں اور اگر نکلتی بھی ہیں تو علاقے کی روایات کے مطابق گھر کا کوئی مرد بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ہمیں اجازت نہیں ہے کہ ہم خواتین کے ساتھ بالغ مرد کو بھی بٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارے ساتھ صرف کالج اور یونیورسٹی کی طالبات سفر کرتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹرانس پشاور سے مطالبہ کیا ہے کہ مردان میں ہمیں اجازت دی جائے کہ خواتین کے ساتھ ان کے خاندان کے مرد کو بھی بٹھا لیں، جس سے ہمارا خسارہ کم ہوجائے گا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

مانسہرہ میں خواتین کے لیے مخصوص پنک بس میں مرد بھی سوار ہیں(تصویر: حامد علی خان بنگش)


انہوں نے مزید بتایا کہ اب ہمارے ساتھ کوئی خاتون کنڈیکٹر نہیں ہے کیونکہ ایک تو کمپنی کو معاشی مسائل کا سامنا ہے اور دوسرا یہ کہ خواتین کے لیے بحیثیت کنڈیکٹر ملازمت کرنا مشکل تھا، تو انہیں ملازمت چھوڑنی پڑی۔

پِنک بس میں کام کرنے والی خاتون کنڈیکٹر اقصیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پنک بس میں چار مہنیے گزارے۔ ’مجھ سمیت کُل چار خواتین کنڈیکٹر تھیں، دو ماہ بعد تین نے کام چھوڑ دیا اور میں نے چار ماہ گزار نے کے بعد کام چھوڑ دیا کیونکہ ہم سے 16 ہزار روپے کی تنخوا پر بات کی گئی تھی جو بعد میں آٹھ ہزار کردی گئی جبکہ باقی تین فی میل کنڈیکٹروں کو صرف چار ہزار روپے دیے گئے۔‘

اقصیٰ کے مطابق: ’کمپنی والے بتا رہے تھے کہ کالج اور یونیورسٹی کی چھٹیاں ہیں اور دوسری خواتین اتنی نہیں ہیں کہ ہمارے خرچے پورے ہوں، اس لیے آپ لوگوں کی تنخوا کاٹ دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہمیں کام چھوڑنا پڑا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب پنک بسوں میں کوئی خاتون کنڈیکٹر نہیں ہے جو کہ ٹرانس پشاور کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں صحافت کی طالبہ لاریب کہتی ہیں کہ ’جب پنک بس شروع ہوئی تو یونیورسٹی آنے جانے میں بہت آسانی ہوئی۔ ہم گھر سے نکلتے تھے تو کوئی فکر نہیں ہوتی تھی کیونکہ بس میں ساری لڑکیاں ہوتی تھی اور کنڈیکٹر بھی لڑکی تھی۔ راستے میں ہراساں کیے جانے کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی، لیکن اب پنک بسیں شہر میں اُس طرح نظر نہیں آرہیں، جس طرح شروع میں نظر آرہی تھیں۔‘

پنک بسوں کو مردان اور ایبٹ آباد میں چلانے والے کمپنی کے نمائندے اور پروگرام مینیجر گوہر ایوب نے رابطہ کرنے پر انڈپینڈٹ اردو کو بتایا کہ ’محکمہ ٹرانس ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہا اور منصوبے کی ناکامی صرف غلط روٹ کی وجہ ہے کیونکہ جو روٹ ہمیں دیا گیا ہے اس پر اتنی خواتین سواریاں موجود نہیں ہوتیں، جس سے ہمارا خرچہ پورا ہوجائے۔‘ انہوں نے ٹرانس پشاور پر الزام لگایا کہ انہوں نے نہ تو پنک بسوں کے روٹ کا سروے کیا تھا اور نہ کوئی فیزیبلٹی رپورٹ بنائی تھی جس کی وجہ سے اب یہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔ گوہر ایوب نے کہا کہ اگر ٹرانس پشاور کا طریقہ کار اسی طرح رہا تو معاہدے میں توسیع کرنا مشکل ہوگا۔

پنک بسوں کی بدولت کالج اور یونیورسٹی کی طالبات کو آمدورفت میں بہت فائدہ ہوا۔ (تصویر: انیلا خالد)


دوسری جانب محکمہ ٹرانس کے پنک بسوں کے آپریشن مینیجر محمد عثمان شفیع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مردان میں پنک بسوں کا ٹھیکہ دینے سے پہلے باقاعدہ طور پر ٹینڈر اخبار میں دیا گیا تھا اور بعد میں کامیاب قرار دینے والی کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اگر کمپنی کو کوئی اعتراض تھا تو ٹرانس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اٹھانا چاہیے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے فیزیبلٹی رپورٹ اور روٹ سروے بھی کیا گیا تھا۔

محمد عثمان کے مطابق معاہدے میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ ایک بس روزانہ 40 کلومیٹر  سفر کرنے کی پابند ہوگی اور اگر ایک بس ایک دن نہ چلائی گئی تو اگلے دن اتنے ہی کلومیٹر فاصلہ پورا کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال تک اگر کمپنی بسوں کو معاہدے کے مطابق چلانے میں کامیاب ہوگئی تو آٹھ سال بعد بسیں کمپنی کو مفت دے دی جائیں گی جب کہ منصوبے کے مطابق بعد میں دونوں شہروں میں بسوں کی تعداد 15، 15 کردی جائے گی۔

جب ان سے خواتین کنڈیکٹروں کو فارغ کیے جانے اور سات بسوں کے لیے صرف چار ڈرائیوروں کی دستیابی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ ہوچکا ہے اور اگر کمپنی اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

شاہ اینڈ آفریدی ٹرانسپورٹ کے مالک اور وسیع تجربہ رکھنے والے ٹرانسپورٹر حشمت خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’پنک بسوں کا منصوبہ بہترین منصوبہ تھا لیکن شروع کرنے سے پہلے ٹھیکدار اور محکمہ ٹرانسپورٹ دونوں اگر صحیح طریقے سے منصوبہ بندی کرلیتے تو یہ کبھی ناکام نہ ہوتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان