سیکس پر سٹوریز کیوں پڑھی جاتی ہیں؟

اس لیے کہ آپ یہ والا بلاگ بھی پڑھ رہے ہیں ( ایک شیطانی قہقہہ) سوری، ایسا نہیں ہے۔

ایک اور ظلم سیکس سے متعلق ماہرین نے کر دیا۔ انہوں نے لیبل لگا دیا کہ ’یہ گے ہے، یہ لیزبین ہے، یہ ٹرانس ہے، یہ کوئیر ہے، یہ بائے سیکشوئل ہے، یہ اے سیکشوئل ہے‘ اور جو کچھ نہیں ہے ’وہ سٹریٹ ہے۔‘ (تصویر: پکسا بے)

اس کے پیچھے دراصل کوئی اور سائنس ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر لاکھ بحث ہو جائے اس کے بارے میں تجسس پھر بھی ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ یہ صرف مزے لینے والی بات نہیں ہوتی کہ اخبار میں یا آن لائن ویب سائٹ پر کچھ بھی چٹ پٹا دیکھا اور اسے پڑھ لیا۔ نہ، یہ صدیوں کی ادھوری کہانی ہے۔

ہر انسان کی جنسی زندگی صرف وہ ہی جانتا ہے: ایک دم پرائیویٹ۔ دوسروں کی سیکس لائف کیسی ہے، یہ جاننے کا اسے شوق ہوتا ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں خود کو، اپنے تجربوں کو، اپنے خیالوں کو اس کے اندر فٹ ہوتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن مکمل طور پہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اس پر ایک اور ظلم سیکس سے متعلق ماہرین نے کر دیا۔ انہوں نے لیبل لگا دیا کہ ’یہ گے ہے، یہ لیزبین ہے، یہ ٹرانس ہے، یہ کوئیر ہے، یہ بائے سیکشوئل ہے، یہ اے سیکشوئل ہے‘ اور جو کچھ نہیں ہے ’وہ سٹریٹ ہے‘، مطلب تاریخی طور پہ جنس میں جو کشش عورت اور مرد کے درمیان دیکھی جاتی ہے، اس کا حامل بندہ سٹریٹ کہلائے گا۔

اس سے ہوا کیا کہ لوگوں میں مزید تقسیم ہو گئی۔ یہ چند قسمیں تو یہاں لکھ دیں لیکن 35 کی فہرست اور انٹرنیٹ پہ موجود ہے۔ فرض کریں کُل ملا کے لوگوں کے جنسی رویوں کی اقسام 50 ہو جائیں تو کیا دنیا کی پوری آبادی ان مختلف قسموں میں فٹ ہو جائے گی؟ قسم سے بالکل ویسے ہی نہیں ہوگی جیسے 12 بُرجوں میں ساڑھے سات ارب لوگوں کی قسمتیں بند نہیں ہو سکتیں۔

تو اب جو آپ کا جنسی رجحان ہے، دلچسپی ہے، رویہ ہے، تجربہ ہے، وہ صرف آپ کا ہے۔ اس پر کوئی ٹھپہ لگ ہی نہیں سکتا۔ آپ ہر ایک دی گئی ٹائپ سے تھوڑا بہت ریلیٹ تو کر سکتے ہیں، یعنی کسی حد تک آپ اُس جیسے ہو سکتے ہیں لیکن مکمل طور پہ آپ کے اندر کیا چل رہا ہے یہ صرف آپ جانتے ہیں۔ وہ جو ’کیا‘ ہے نا، اصل میں وہ ’کیا‘ آپ کو بھگاتا پھرتا ہے۔ آپ ڈھونڈتے ہیں کہ یار یہ جو مجھے فلاں چیز میں دلچسپی ہے، کیا یہ ’نارمل‘ ہے؟ یہ جو مجھے خیال آتے ہیں، کیا دوسروں کو بھی آتے ہیں؟ یہ جو میں اس میدان میں کرنا چاہتا ہوں، کیا دوسرے بھی کرنا چاہتے ہیں؟ چونکہ آپ اس پر دوستوں تک سے اتنا کھل کر بات نہیں کر سکتے اس لیے آپ ایسی خبروں اور ایسی معلومات میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جو آسان طریقے سے مل سکیں۔ پہلے زمانے میں مخصوص کتابیں ہوتی تھیں، اب انٹرنیٹ پہ سب کچھ ملتا ہے۔ قسم کھائیں کہ آپ میں سے کوئی نور کلینک کی ویب سائٹ پر کبھی نہیں گیا؟ یا گوگل کو اپنے کسی ایسے سوال کے لیے زحمت نہیں دی؟

ایسا نہیں ہے کہ صرف اَپن لوگ اس میدان کے خوار ہیں، گورے بیچارے ہم سے زیادہ ہیں۔ ہمیں تو چونکہ نارمل سیکس لائف پر بات کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا، اس لیے ہماری سوچ صرف روٹین کے حالات میں گھومتی ہے۔ وہ غریب چونکہ کھلے ماحول میں ہیں اس لیے ان کے سوال بھی ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم فقیر لوگ تو اپنی جسمانی ساخت کے بارے میں سوچ سوچ کے آدھے ہو جاتے ہیں حالانکہ ہمیں ایکسپوز ہونے کا، عملی تجربے میں پڑنے کا موقع ہی کم کم نصیب ہوتا ہے۔ وہ جو ہیں، ان سارے مرحلوں اور تجربوں سے گزر کر زیادہ عذاب میں ہیں۔ ان کی تو عورتیں ہوں یا مرد، سب ہر وقت اس کشمکش میں رہتے ہیں کہ انسانی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جنسی رویے دوسروں کے لیے قابلِ قبول کیسے بنائے جائیں۔ ان کا تو ’می ٹو‘ ہم سے بھی زیادہ سخت ہے۔ وہ کوئی بھی نئی مہم جوئی کرنے سے پہلے اس کا نام ڈھونڈتے ہیں، دوسرے ساتھی سے بات کرتے ہیں کہ استاد یہ چل رہا ہے، کیا خیال ہے؟ تو ان کی سرچ، ان کا تجسس، ان کی سنجیدگی سب کچھ آن لائن ہو یا آف لائن، اس میدان میں ہم سے کافی آگے ہے۔

بھائی یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ آپ جو سیکس سے متعلق مواد پڑھتے ہیں وہ غلط ہے یا ٹھیک ہے، وہ تو آپ کو بتا رہا ہے کہ ’مترو تسی کلے نئیں‘، سارے اسی دریا میں گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کچھ پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں، کچھ ہسٹری ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، کچھ پڑھ لیتے ہیں لائیک نہیں مارتے، کچھ شیئر کر دیتے ہیں لیکن ٹائٹ رہتی ہے (حالت) کہ گھر میں کوئی سوال نہ اٹھ جائے تو بس ایسے کام چلتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی تاریخ میں اس موضوع پہ اچھی خاصی مغز ماری ہوئی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے یہاں بھی ایک اردو رسالے کا خاص نمبر شائع ہوا ہے جو ٹوٹل انہی معاملات کو ڈیل کرتا ہے (ڈھونڈیں مت، اِن باکس میں آ کر پوچھ لیں)۔ اصل میں جو کچھ کرنے سے انسان گھبراتا ہے، اس کے بارے میں پڑھنے سے نسبتاً کم گھبراتا ہے، لگی کا داؤ ہے، دے مار ساڑھے چار، اپنے اپنے محدود وسائل میں جو انسان جس کھانچے میں خوش رہے، رہنے دیں، کی جاندا اے فقیراں دا؟

غور کرنا ہے تو اس بات پہ کریں کہ ایک الٹرا نارمل انسانی ضرورت کس طرح ایک پیچیدہ سائنس میں تبدیل ہو چکی ہے؟ روکنے والوں نے ہر طرح کے گھیرو پروگرام ڈال کے دیکھ لیا، جس کے دماغ میں آئی ہوئی ہے وہ کوئی نہ کوئی جگاڑ ڈھونڈ کے نکرے لگ گیا۔ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ اس اشد ضروری کام سے بچ نہیں سکتے، جو بہت زیادہ سمجھ جاتے ہیں (یا ریٹائرمنٹ انجوائے کر رہے ہوتے ہیں) وہ کچھ لکھ شکھ دیتے ہیں، جو ہم جیسے عام لوگ پڑھ کے سائیڈ پہ ہو جاتے ہیں، نتیجہ بابا جی کا الو!

مزے کا سین تب ہوتا ہے جب آپ کسی ویب سائٹ کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوں۔ سٹیئرنگ آپ کے ہاتھ میں ہو، عوام مرے پڑے ہوں، کسی کا دور دور تک سائٹ پہ آنے کا موڈ نہ ہو، ٹریفک چیک کرنے والا پیج پڑھنے والوں کا گراف مسلسل نیچے گرتا دکھا رہا ہو اور آپ ایک خبر لگا دیں: ’انسانوں میں سیکس کا نارمل رویہ کیا ہے؟‘ اب اس میں جو مرضی لکھنے والا ہانک دے، اکثر نے ٹوٹ پڑنا ہے۔ ایک شیئر نہیں ہونا لیکن دو دن میں لاکھوں لوگوں تک اس خبر کا فیض پہنچ چکا ہوتا ہے۔

انسانوں میں سیکس کا نارمل رویہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہو ہی نہیں سکتا، ہر انسان کے اپنے حالات، اپنی پسند ناپسند، اپنی کیفیات، اپنی پسندیدہ خوشبوئیں، اپنے پسندیدہ موسم، ان سب کے بعد اپنے پسندیدہ دیگر حالات، وہ سب کچھ مل کے ایک آدمی کا رویہ (بلکہ موڈ) بناتے ہیں۔ تو وہ نارمل کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو بابو سب میں کچھ نہ کچھ ٹیڑھ ہوتی ہے، جو مان لے وہ ست گرو جو نہ مانے وہ پھر سے سوچنا شروع کر دے کہ سیکس پر کہانیاں کیوں پڑھی جاتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ