پی ٹی آئی حکومت سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے میں کامیاب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ( فائل تصویر: اے ایف پی)

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجر بینچ نے وفاقی وزارت داخلہ کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔ درخواست میں خصوصی عدالت کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے میں حتمی فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ خصوصی عدالت نے جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں محفوظ فیصلہ28 نومبر کو سنانا تھا۔

سماعت کے شروع میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پہلے وفاقی وزارت داخلہ کی درخواست سنی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا سنگین غداری کیس کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سنگین غداری کیس کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

انہوں نے وفاقی سیکریٹری قانون و انصاف کی عدالت میں غیر موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ مکمل ریکارڈ کے ساتھ موجود ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی سالیسٹر کو کہا کہ سیکریٹری قانون و انصاف کو آدھے گھنٹے میں عدالت پہنچنے کا پیغام دیں۔

ایک موقعے پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کی تقرری ہوتی ہے۔

جسٹس عامر فارق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی۔ اب آپ دلائل سے بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پھر تو آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں۔ تین نومبر کی ایمرجنسی کا ٹارگٹ عدلیہ تھی۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آپ کو اتنے سالوں کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں۔

انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جائیں جا کر بیان دیں کہ ہم مشرف کے خلاف درخواست واپس لے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا عدالت میں کیوں آئے ہیں۔ اگر آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟

انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ درخواست کابینہ کی اجازت سے دائر کی گئی ہے؟

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست سیکرٹری داخلہ کی جانب سے داخل کرائی گئی تھی۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقع پر کہا کہ ایک شخص جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اُس کا کیس ہے ۔وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے۔

تاہم ہم نے اس کے فیئر ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنا ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان