وہ جگہ جہاں مردوں کا ریپ ہوتا ہے

کشمیر شاید واحد مقام ہے جہاں اجتماعی سزا کے طور پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کا بھی ریپ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے نہ کبھی ان واقعات کی تحقیقات کرنے کی اجازت دی، نہ انسانی حقوق کے ادارے متاثرین کی نشاندہی کرسکے اور نہ ہی فوج نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیا۔

سرینگر: ایک لڑکی 2014 میں والدین کی جانب سے آویزاں اُن کے جبری طور پر لاپتہ بچوں کی تصویروں کے سامنے سے گزر رہی ہے(اے ایف پی)

بھارتی فوجی افسر جنرل سنہا کے گذشتہ ہفتے ٹی وی مباحثے کے بارے میں میرے کالم پر بیشتر کشمیریوں نے اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے مجھے پیغامات بھیجے کہ کاش میں نے ان کی مثال بھی پیش کی ہوتی یا ان کے مصائب کی نشاندہی کی ہوتی یا 30 برسوں پر محیط جنسی زیادتیوں کے شکار افراد سے بات کی ہوتی جو آبادی کے ایک بڑے حصے کو روز دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

میں انتہائی نادم ہوں اور اعتراف کرتی ہوں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جنسی تشدد کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ ایسا شاید ہی کوئی خاندان ہے جس کا کوئی فرد تشدد کی زد میں نہ آیا ہو۔ میں کس کس کی بربادی کی داستان لکھوں جب پوری آبادی ذہنی اور جسمانی زیادیتوں کا شکار اور زندگی کی کشمکش سے جوج رہی ہے۔

شاید یہ دنیا کا واحد مقام ہوگا جہاں اجتماعی سزا کے طور پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کا بھی ریپ کیا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت نے نہ تو ان واقعات کی تحقیقات کرنے کی کبھی اجازت دی، نہ انسانی حقوق کے ادارے ہر متاثر کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ فوج نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیا۔

کشمیر کی 70 فیصد آبادی مسلسل تشدد کے باعث اس وقت ذہنی مریض بن چکی ہے۔ نوجوانوں کی تعداد آبادی کا 65 فیصد ہے، جو معاشی و معاشرتی، ذہنی، جسمانی اور سیاسی طور پر مفلوج کر دیے گئے ہیں۔

ان میں سے 60 فیصد مہلک ذہنی امراض کا شکار ہیں اور بیشتر کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد عورتیں ریپ ہو چکی ہیں جبکہ بعض اداروں نے ان کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ بتائی ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے بقول یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔

تین دہائیوں میں تقریباً 40000 سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن پر جسمانی تشدد کر کے بیشتر کو زندگی بھر کے لیے مفلوج بنا دیا گیا۔ حقوق انسانی کے اداروں نے بعض معاملات کی نشاندہی بھی کی مگر آج تک ان کی تحقیقات نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہندوارہ کے عبدالماجد بانڈے کی روداد ان بیشتر نوجوانوں کی ترجمانی کرتی ہے جو اس وقت بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ بانڈے نے برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی حالانکہ اس سے پہلے نوعمری میں اسیری کے دوران جنسی تشدد سے گزر چکے تھے اور زندگی سے اکتا چکے تھے مگر دل میں کچھ بننے کی ٹھان لی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے 1997 میں ایک کوچنگ سنٹر سے گرفتار کر کے فوجی کیمپ میں لے جایا گیا جہاں مجھے شدید جسمانی تشدد سے گزرنا پڑا۔‘

’بجلی کی تار کا ایک سرا میرے نجی اعضا سے جوڑا گیا اور دوسرا میرے پیر کےانگوٹھے سے۔ کئی بار کرنٹ لگنے سے میں بےہوش ہو جاتا، ہوش میں آ کر دوبارہ یہی حالت کر دی جاتی۔ پھر فوجی آ کر مجھ پر چڑھ جاتے اور میرے نجی اعضا کو چھو کر ہنسی مذاق کرتے۔

مجھے الٹا لٹکا کر ریپ کرتے، گالیاں دیتے اور میرے بدن کے اعضا سے کھیلتے رہتے۔ دوسرے دن میری تفتیش شروع کر کے پھر بجلی کے جھٹکے دیتے اور اوپر سے پانی ڈالتے... میری زندگی تباہ کر دی گئی، نہ میں زندہ ہوں اور نہ مُردہ ۔ جب وہ دن یاد کرتا ہوں تو اندھیرے میں بیٹھ کر روتا رہتا ہوں۔‘

بانڈے نے تقریباً 10 برس قبل انجینیئر رشید کی مین سٹریم پارٹی میں شرکت کی تاکہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بننے سے روک سکیں مگر 2008 کے بعد سیاست میں باضابطہ آنے کے باوجود انہیں کئی بار جیل جانا پڑا۔

کبھی انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر تو کبھی سیاسی جلسوں کے دوران. بانڈے کہتے ہیں کہ وہ دورانِ حراست کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے کیونکہ ریاست کو فوجی چھاؤنی بنا کر کسی کو تحفظ ملنے کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے اور یہ واحد جگہ ہے جہاں آزادی نواز یا قومی دھارے کے دائرے میں آ کر اذیت حاصل ہوتی ہے۔ میں نے جب بانڈے سے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر کا کوئی اور بھی فوجی تشدد کا نشانہ بنا؟

ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے، سر نیچے جھکایا اور کہنے لگے ’میری ماں، انہیں ایک کمانڈنگ آفیسر کی نگرانی میں فوجی زیادتی کا شکار ہونا پڑا جب دو سرنڈرڈ شدت پسندوں سمیت فوجیوں نے میرے مکان کا گھیراؤ کیا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں اس ذلت کی پوری تفصیل بتا سکوں۔ بس اس روز کی ذلت سے اندر ہی اندر مر چکا ہوں۔ اپنی ماں کا تحفظ نہیں کرسکا۔ بس ایک زندہ لاش ہوں۔‘

ان کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ بانڈے کہتے ہیں ’میں نے ایف آئی آر بھی درج نہیں کرائی کیونکہ جو پہلے مقدمات درج ہیں ان پر کیا کارروائی ہوئی، پھر یہ بھی خوف تھا کہ لوگ اگر میری حالت سے واقف ہوگئے تو سوسائٹی میں زندہ رہنا دشوار ہوجائے گا۔ میرے گاؤں کے تقریباً ہر نوجوان کی یہ داستان ہے۔ انصاف کے عالمی اداروں تک ہماری نہ رسائی ہے اور نہ وہ ہمارے درد پر مرہم رکھ سکے اور نہ بھارت کو ایسا کرنے سے روک سکے۔ ہماری چار نسلیں جسمانی تشدد کا شکار ہیں مگر کوئی نہیں جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھتا۔‘

جب بھی کشمیر میں جنسی زیادتی کا شکار مرد یا عورت سے ایف آئی آر درج کرانے کا سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ فورا کنن پوشپورہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں سو سے زائد عورتوں کو اپنے اہل خانہ کے سامنے ریپ کیا گیا، مقامی پولیس نے فوجی جوانوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی لیکن جب وہ کیس سپریم کورٹ میں دبایا گیا تو ہماری کیا اوقات؟

بانڈے کہتے ہیں کہ بھارت نے بربریت کی تمام حدیں پار کر دی ہیں اور کشمیری قوم کو اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے تمام ہتھیار استعمال کیے ہیں مگر ہم آخری سانس تک اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں نوے کی دہائی کی طرح آبادیوں کے محاصرے کے دوران مردوں کو باہر کسی کھلے مقام پر لے جایا جاتا ہے اور خواتین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

مردوں کو گرفتار کر کے تفتیشی مراکز میں جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے جبکہ عورتوں کو اپنے گھروں کے اندر....یہ سلسلہ تین دہائیوں سے جاری ہے جس میں پانچ اگست کے بعد شدت پیدا ہوئی ہے جب بھارتی حکومت  نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اس کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کر دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ