پنک ٹیسٹ: پاکستان آسڑیلین بولروں سے رعایت کی امید نہ رکھے

گلابی گیند پر پاکستان کا ریکارڈ برا نہیں۔ اظہر علی ٹرپل سنچری جبکہ اسد شفیق سنچری بنا چکے ہیں، ان کا تجربہ اور بابر اعظم کی موجودہ فارم پاکستان ٹیم کی امیدوں کا مرکز ہو گی۔

ایڈیلیڈ ٹیسٹ پاکستانی تاریخ کا چوتھا ’گلابی‘ ٹیسٹ ہو گا (اے ایف پی)

گلابی رنگ کی گیند میں صرف رنگ ہی گلابی ہے، ورنہ اس میں نزاکت ہے نہ نرمی اور پھر اگر ایڈیلیڈ کی پچ پر مچل سٹارک کے ہاتھ میں ہو تو کسی تیر سے کم نہیں۔

عہد قدیم سے لے کر دور حاضر تک گلابی رنگ نسوانیت کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ کرکٹ کا ایک لازمی جزو بنتا جارہا ہے۔ کرکٹ گیند کے سفر کو سرخ سے سفید تک پہنچنے میں تو سو سال لگ گئے لیکن سفید رنگ آج تک کرکٹ کے سب سے بڑے درجے ٹیسٹ میچ تک نہ پہنچ سکا اور اس کی پہنچ بس محدود دورانیے کرکٹ تک ہی ہے، لیکن سرخ سے گلابی تک پہنچنے میں کرکٹ گیند کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ 

جب ٹیسٹ کرکٹ کو ڈے نائٹ تک لانے کی باتیں ہونے لگیں تو سوال اٹھا کہ گیند کس رنگ کی ہو گی کیونکہ سرخ رنگ کو رات کی روشنی میں صحیح طرح دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ گلابی رنگ کی گیند استعمال کی جائے کیونکہ گلابی رنگ کی گیند پر روشنی پڑنے کے بعد اس کے اندر جذب نہیں ہوتی اس لیے واضح نظر آتی ہے۔  

گلابی رنگ کی گیند سے کھیلنے پر مردوں کی کرکٹ ٹیمیں تو بحث و مباحثے میں مصروف تھیں کہ خواتین کی کرکٹ نے چھلانگ لگائی اور 2009 میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے ایک روزہ میچ سے گلابی گیند کا آغاز کر دیا۔ 

2010 کے انگلینڈ نے پہلا تجربہ کرتے ہوئے کاؤنٹی کرکٹ میں گلابی گیند متعارف کروائی اور کچھ میچ گلابی گیند سے کھیلے گئے۔ اگرچہ میچ میں کوئی فرق نہ پڑا مگر کھلاڑیوں کو اس پر اعتراض ہی رہا۔ 

پاکستان نے اس سلسلے میں تیزی دکھائی اور 2011 کے قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں گلابی گیند سے اپنے کیریئر کاآغاز کر دیا۔ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش نے بھی اِسی سال اس کا استعمال شروع کر دیا۔

اُدھر آسٹریلیا میں 2014 میں پہلی بار گلابی گیند متعارف ہوئی اور شیفیلڈ لیگ کے سارے میچ کوکوبرا گلابی گیند سے کھیلے گئے جس نے آسٹریلیا کا حوصلہ بڑھا دیا اور 2015 کے سیزن کے ابتدائی ٹیسٹ میں گلابی گیند استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔

ایڈیلیڈ کا ٹیسٹ گراؤنڈ اس کے لیے آئیڈیل تھا کیونکہ ایڈیلیڈ کے تماشائیوں کی ہمیشہ سے شام کے وقت کرکٹ دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

27 نومبر 2015 کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ گلابی گیند سے تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ بن گیا۔ اس ٹیسٹ میں گلابی گیند کو مٹّی سے بچانے کے لیے گراؤنڈ کی گھاس زیادہ اونچی رکھی گئی تاکہ گیند پر نشان کم پڑیں اور بلے بازوں کو صحیح نظر آ سکے۔

پہلے ڈے نائٹ ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے بعد پتہ چلا کہ 81 فیصد آسٹریلین شائقین کرکٹ صرف شام میں دیکھنا چاہتے ہیں جس نے گلابی گیند کا حوصلہ بڑھا دیا۔ اس ٹیسٹ نے اور ممالک پر دروازے کھول دیے۔  

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اکتوبر 2017 میں ٹیسٹ کھیل کر تاریخ میں دوسری ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ چند مہینوں بعد اسی سال پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف برزبین میں دوسرا ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلا۔

اس کے بعد تقریباً تمام ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک نے ماسوا بھارت کے گلابی گیند سے ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیل کر ابتدا کر دی۔

بھارت کو اس تجربے سے گزرنے میں کافی وقت لگ گیا اور پہلا ٹیسٹ بنگلہ دیش کے خلاف اسی سال نومبر میں کھیلا گیا۔ لیکن خیر، یہ بھارت کی پرانی عادت ہے۔ اس نے ہر نئے کرکٹ تجربے میں تاخیر سے کام لیا، جس کی مثال ڈی آر ایس ہے جس کے لیے ابھی تک وہ تیار نہیں۔ 

اب تک گلابی گیند سے 12 ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلے جا چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ پانچ آسٹریلیا میں کھیلے گئے جبکہ دبئی دو میچوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ کا چوتھا ’گلابی‘ میچ اس جمعے سے ایڈیلیڈ میں کھیلے گا جو رواں سال کا پاکستان کا بیرون ملک آخری میچ بھی ہو گا۔

ایڈیلیڈ کا خوبصورت اوول گراؤنڈ اپنے مہذب تماشائیوں اور اعلیٰ اقدار کے باعث مہمان ٹیموں کے لیے ہمیشہ پسندیدہ میدان رہا ہے۔ پاکستان نے اپنا آخری میچ یہاں جنوری 1990 میں عمران خان کی کپتانی میں کھیلا تھا جس میں عمران خان اور وسیم اکرم نے سنچریاں سکور کیں، دونوں کی 190 رنز کی شراکت نے میچ بچا لیا تھا۔

وسیم اکرم نے اس ٹیسٹ میں سنچری کے ساتھ پانچ وکٹیں لے کر میچ میں ڈبل بھی کیا تھا۔ پاکستان اب تک چار ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیل چکا ہے جن میں سے تین ڈرا ہوئے ہیں۔

تقریباً 30 سال کے بعد پاکستان اس میدان پر جب موجودہ سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے لیے میدان میں اترے گا تو اس کے ذہن میں یہی ہو گا کہ برزبین کی شکست کا بہتر کارکردگی سے ازالہ کیا جائے۔  

ایڈیلیڈ کی وکٹ برزبین جیسی تیز تو نہیں لیکن موجودہ آسٹریلین بولروں سے کسی نرمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان اس میچ میں کم ازکم دو تبدیلیاں کر سکتا ہے۔ عمران خان کی جگہ محمد عباس اور حارث سہیل کی جگہ امام الحق کی شرکت یقینی ہے۔ نو آموز بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے سپنر کاشف بھٹی بھی مصباح الحق کے ریڈار پر ہیں، ممکن ہے افتخار احمد کی جگہ وہ کھیل جائیں۔

گلابی گیند پر پاکستان کا ریکارڈ برا نہیں۔ اظہر علی ٹرپل سنچری اور اسد شفیق سنچری بنا چکے ہیں، ان کا تجربہ اور بابر اعظم کی موجودہ فارم پاکستان ٹیم کی امیدوں کا مرکز ہو گی۔

دیکھنا یہ ہے کہ زخم خوردہ شاہینوں کی پرواز اس ٹیسٹ میں کہاں تک پہنچتی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ