آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ توسیع کی مشروط منظوری

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی مشروط منظوری دی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کی سماعت کی(روئٹرز)

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی مشروط منظوری دی جا رہی ہے۔

جمعرات کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کہنا تھا کہ ’اس وقت مختصر فیصلہ سنا رہے ہیں تفصیلی فیصلہ بعد میں سنائیں گے۔‘

فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے درخواست خارج کر دی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت آرمی چیف کو 28 نومبر سے توسیع دے رہی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس حوالے سے چھ ماہ میں قانون سازی کرے گی۔

فیصلے کے مطابق ’آرمی چیف کی مدت ملازمت کی سمری پر ریٹائرمنٹ کی تاریخ درج نہیں ہے۔ حکومت کو نئی قانون سازی کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ اس دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے پر بدستور براجمان رہیں گے۔‘

’عدالت اب معاملہ حکومت اور پارلیمان پر چھوڑتی ہے۔ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے ایک موقف سے دوسرا موقف اختیار کیا ہے۔

’عدالت نے آرٹیکل 243 بی کا جائزہ لیا۔ آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے حکومت اسی آرٹیکل پر انحصار کر رہی ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان وزیراعظم عمران خان نے اس عدالتی فیصلے کے بعد کے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’آج ان لوگوں کے لیے مایوسی کا دن ہے کو اداروں کے درمیان تصادم کی امید کر رہے تھے۔‘

عمران خان نے کہا ہے کہ ’ایسا نہ ہوسکا، جو ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کے لیے خصوصی مایوسی کا سبب ہو گا۔‘

انھوں نے اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا کہ ’یہ بھی کہتا چلوں کہ میں چیف جسٹس کھوسہ کی بہت عزت کرتا ہوں، وہ پاکستان میں پیدا ہونے والے بہترین ماہرین قانون میں سے ایک ہیں۔‘

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کی سماعت کی۔

 بینچ نے اٹارنی جنرل کو مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سمری میں غلطیاں دور کرنے کے لیے دوپہر ایک بجے تک کی مہلت دی تھی تاکہ اس کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا جا سکے۔ 

قبل ازیں سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور سے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات طلب کیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ماضی میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کس طریقہ کار کے تحت ہوئی تھی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران گذشتہ روز بنائی جانے والی سمری عدالت میں پیش کی گئی تو عدالت نے دوبارہ اِس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سمری میں لکھا ہوا ہے کہ اس میں تبدیلی عدالت عظمیٰ کے کہنے پر کی گئی۔  چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو کیوں درمیان میں لاتے ہیں؟ ’آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں۔‘

چیف جسٹس نے سمری کا جائزہ لیتے ہوئے مزید کہا کہ تعیناتی آج 28 نومبر سے کر دی ہے جبکہ آج تو جنرل باجوہ آرمی چیف ہیں جو عہدہ ابھی خالی ہی نہیں ہوا، اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؟

عدالت کا یہ بھی استفسار رہا کہ اگر کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے 30 سال کے لیے توسیع دیں گے؟ ماضی میں تو کسی کو ایک سال، کسی کو دو سال کی توسیع دی گئی۔ ’کل جب ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر ہوتے ہیں تو آپ کہہ رہے تھے نہیں ہوتے۔ پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، لہذا پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس ابہام کو دور کرے۔ ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کر قانون بنا کرآئیں، جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی میں نہیں بن سکتا۔‘

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویزکے، لیکن وہ کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں جس کے لیے تین سے چھے ماہ کا وقت درکار ہو گا۔

اس پر بینچ نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا تھا کہ ’آپ نے قانونی سازی کے لیے تین ماہ مانگے ہیں تو ہم تین ماہ کے لیے مدت ملازمت میں توسیع کردیتے ہیں۔‘ 

بعد ازاں بینچ نے حکومتی ٹیم کو ایک بجے تک کی مذکورہ مہلت دی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان