ایکٹیوازم کے لیے 16 دن ہی کیوں؟

ہر سال کی طرح 25 نومبر سے فعالیت (ایکٹیوازم) کے 16 دنوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں دس دسمبر تک جاری رہیں گی۔

16 دنوں کی مہم کا مقصد ہی خواتین کے خلاف مختلف قسم کے تشدد اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا، شعور بیدار کرنا اور قانون سازی کرنا ہے (یو این وومن، پشاور)

ہر سال کی طرح 25 نومبر سے ایکٹیوازم کے 16 دنوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں دس دسمبر تک جاری رہیں گی،  جس میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے 186 ممالک اور  چھ  ہزار سے زائد حقوق نسواں کی تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

تاہم اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ایکٹیوازم کے لیے 16 دنوں کے لیے 25  نومبر سے 10 دسمبر تک کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے۔ یہ مدت 16 دنوں پر کیوں محیط ہے، کیا یہ اس سے زیادہ یا کم مدت مناسب نہیں، اور یا پھر یہ مہم سال کے کسی اور مہینے میں کیوں نہیں منائی جاتی؟

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ 25 نومبر خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، کیونکہ اسی دن 1960 میں ڈومینیکن ریپبلک سے تعلق رکھنے والی تین بہنوں پیٹریا، منروا اور ماریہ کو ملک کے حکمران اور آمر رافیل ٹروجیلو نے اپنے آدمیوں کے ذریعے اس لیے قتل کروایا تھا کہ تینوں بہنیں رافیل ٹروجیلو کی حکومت کے خلاف تھیں۔

ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ رافیل نے منروا کے ساتھ ’جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش‘ کی تھی جس کو منروا نے بے رخی سے رد کر دیا تھا۔ اس کی پاداش میں منروا کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں گرفتار کیا گیا، یہاں تک کہ جب انھوں نے وکالت پر پریکٹس کرنا چاہی تو انہیں لائسنس نہیں دیا گیا۔

منروا کی ٹروجیلو کے خلاف بغاوت اور احتجاج میں ان کی دو بہنوں ماریہ اور پیٹریا نے بھی ساتھ دیا۔ 1960 کی ایک صبح جب تینوں بہنیں اپنے ڈرائیور کے ساتھ بہن کے گھر جا رہی تھیں۔ ٹروجیلو کے آدمیوں نے انہیں راستے میں روک کر ان کو ہلاک کر دیا۔ جس کے بعد ان کی گاڑی کو پہاڑیوں پر لے جا کر اس واقعے کو ایک حادثے کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ تاہم 1961 میں رافیل کے قتل کے بعد ایک جنرل نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس کچھ ذاتی معلومات ہیں کہ تینوں بہنوں کو رافیل نے ہی قتل کیا تھا۔

اس واقعے کی یاد میں 1990 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 25 نومبر کا دن تینوں بہنوں کے نام مختص کر کے اس کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا۔

چونکہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ 16 دنوں کی مہم کا مقصد ہی خواتین کے خلاف مختلف قسم کے تشدد اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا، شعور بیدار کرنا اور قانون سازی کرنا ہے، لہذا 25 نومبر کا دن ایک بہترین آغاز سمجھا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علاوہ ازیں، متذکرہ تاریخ کے بعد 10 دسمبر  تک یکے بعد دیگرے اہم عالمی موضوعات کے دن منائے جاتے ہیں۔ جن میں 29 نومبر کو حقوق انسانی پر کام کرنے والی سماجی کارکنان کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تاکہ ان کے مسائل اور ان پر ایکٹیویزم  کی وجہ سے ڈھائے گئے مظالم اور خطرات پر روشنی ڈالی جا سکے۔

16 دن کی اس مدت میں یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن  سماجی کارکنان خصوصی طور پر  خواتین کی صحت اور ایڈز سے متعلق شعور بیدار کرنے پر روشنی ڈالتی ہیں۔

پانچ دسمبر کو انٹرنیشنل وولنٹئرز ڈے منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد غیر سرکاری تنظیموں اور افراد کی انسانی حقوق کے حوالے سے کوششوں پر روشنی ڈالنا اور اس کو مزید بہتر بنانے کا عزم کیا جاتا ہے۔

چھ دسمبر کو خواتین کے خلاف تشدد اور  مونٹریال قتل عام کے واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ چھ دسمبر 1989 کو فرانس کے مضافات میں انجنیئرنگ کے ایک سکول میں کینیڈا کے ایک باشندے مارک نے گھس کر 14 خواتین طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ مارک نے ایک کاغذ  پر اپنے اس اقدام کی وجہ فیمینسٹ خواتین سے نفرت بتائی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ انجینئرنگ مضمون پڑھنے والی خواتین مردوں کا مقابلہ کرنے کا عزم رکھتی تھیں لہذا انھوں نے انھیں سبق سکھانے کی کوشش کی۔

اس واقعے کی یاد میں کینیڈا کی پارلیمنٹ نے چھ دسمبر 1991 کو باضابطہ طور پر منانے  کا اعادہ کیا۔ تب سے ہر سال  کینیڈا میں چھ دسمبر کو سفید ربن پہنی جاتی ہے جس کو تشدد کے خاتمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

دس دسمبر پوری دنیا میں یوم انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کے انتخاب کا مقصد 10 دسمبر  1949 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی توثیق کردہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور کی یاد تازہ کرنا اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہے۔ اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں، جلسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جن میں انسانی حقوق کے مختلف پہلووں پر بات کی جاتی ہے اور ان کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔

رخشندہ ناز، صوبائی محتسب خیبر پختونخوا

صوبائی محتسب خیبر پختونخوا میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف ایکشن لینے کے معاملات  پر مامور صوبائی محتسب رخشندہ ناز سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال کیا کہ 16 دن کے ایکٹیوازم میں خیبر پختونخوا کتنا متحرک ہے اور اس صوبے کی وومن رائٹس ڈیفینڈرز کس حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ہیں؟ اس پر انھوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں 16 روزہ ایکٹیوزم  کا آغاز سب سے پہلے عورت فاونڈیشن نے کیا تھا۔

’ یہ 1999 کی بات ہے میں اس وقت عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ کے طور پر کام کر رہی تھی۔ ہم نے تمام سول سوسائٹی کی ارکان کو ساتھ ملا کر صوبائی اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایک قرارداد جمع کروائی تھی۔ حاجی عدیل اس وقت سپیکر تھے۔ لہذا گھریلو تشدد پر ہمارے جو مطالبات تھے وہ ہم نے ان کے پاس جمع کروائے۔ اب تو صوبے میں بہت سی اور تنظیمیں آگئی ہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی خواتین کے ان خصوصی 16 دنوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘

خواتین میں شعور بیدار کرنے اور انہیں تشدد سے پاک ماحول مہیا کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا میں بہت کام ہو بھی چکا ہے لیکن بہت سارے معاملات پر ابھی کام کرنا باقی ہے۔

’یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ خواتین کے تمام قسم کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خواتین کو سیاست اور دیگر میدانوں میں نمائندگی مل رہی ہے۔ بے آسرا خواتین کے لیے شیلٹر ہومز کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی میں سمجھتی ہوں کہ جب تک قانون کے اندر خواتین کی حیثیت  تبدیل نہیں ہوگی تو جدوجہد جاری رہے گی۔ ‘

رخشندہ ناز نے کہا کہ ان کا ادارہ پشاور کے مختلف جنرل بس سٹینڈز کے آس پاس پینا فلیکس لگوائے گا۔ جن پر ہراسیت اور تشدد کی سزا اور خواتین کے لیے ہدایت نامے درج ہوں گے۔

شاد بیگم، سماجی کارکن

شاد بیگم پچھلے کئی سالوں سے خواتین کے مختلف مسائل خاص طور پر ان کے سیاسی و معاشی حقوق پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایکٹیوازم کے 16 دنوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس سال کا موضوع  ’جنسی زبردستی‘ اور  ’غیرت کے نام پر قتل ‘ ہیں لہذا انھوں نے اس حوالے سے قانون ساز اداروں، خواتین سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کی ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی ہے جس میں وہ جنسی تشدد کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کی عملداری پر روشنی ڈالیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر قوانین پاس کر کے سمجھا جاتا ہے کہ ذمہ داری پوری ہو گئی۔ جب کہ میرا ماننا ہے کہ اصل ذمہ داری قانون پاس کروانے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے دور دراز کے دیہات کی مثال لیجیے۔ وہاں نہ ادارے ہیں نہ خواتین کا عملہ۔ ایسے میں ان علاقوں کی خواتین سے یہ توقع رکھنا حماقت ہے کہ وہ اپنے مسائل کے لیے پشاور یا اسلام آباد کا رخ کریں گی۔‘

شاد بیگم نے کہا کہ جنسی زبردستی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا اس لیے موجود نہیں کہ خواتین کے لیے ابھی تک ایسا نظام ہی موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وہ بلا خطر اپنی شکایت درج کروا کر انصاف لے سکیں۔

’یہی حال غیرت کے نام پر قتل کے کیسز کا ہے۔ اگرچہ عورت فاؤنڈیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق  پاکستان میں ہر سال ایک ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوتے ہیں لیکن یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘

شاد بیگم نے مزید کہا کہ ان تمام  وجوہات کی بنا پر اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر برائے خواتین نے اس سال شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ  ذمہ دار اداروں کی جوابدہی پر بھی زور دیا ہے۔

پشاور میں اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر یو این ویمن کی رکن مدیحہ محسن نے کہا کہ ان کے ادارے نے 16 دن ایکٹیوازم کے حوالے سے صوبائی محتسب دفتر برائے انسداد ہراسیت اور ویمن کمیشن کے ساتھ مل کر دیہاتی خواتین کے لیے پشاور میں واقع ایک گاؤں  میں بہت بڑے مجمعے کا انعقاد کیا، جس میں پانچ سو سے زائد مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین نے حصہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ ’عموماً ایسی تقریبات کو مختلف وجوہات کی بنا پر فائیو سٹار ہوٹلوں میں منعقد کیا جاتا ہے لیکن ہم سب اس بات کے قائل ہیں کہ اگر دیہاتی اور گھریلو خواتین کی بات سننی ہے تو خود ان کے پاس جایا جائے۔ تقریب میں پشاور کے نجی ہسپتال نارتھ ویسٹ نے فری میڈیکل کیمپ  لگا کر خواتین کا معائنہ کیا۔ اس کے علاوہ، خواتین کا ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مہم میں شرکت یقینی بنانے کے لیے ان میں کپڑے کے شاپنگ بیگز بھی تقسیم کیے گئے۔‘

مدیحہ محسن نے مزید کہا کہ تقریب میں شرکت کرنے والی تمام خواتین میں نارنجی رنگ کے دوپٹے بھی تقسیم کیے گئے جس کی وجہ سے نہ صرف تقریب کے رنگ میں نکھار آگیا بلکہ خواتین میں عزم اور و لولہ بھی بڑھ گیا۔

ایکٹیوازم کے 16 دن تحریک کا نعرہ ’اورنج د ورلڈ‘ ہے۔ اورنج یعنی  نارنجی رنگ کو تشدد سے پاک ایک تابناک مستقبل کی علامت  کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین