طلبہ یکجہتی مارچ: ’دھرنے بھی پلان کر سکتے ہیں‘

طالب علموں کے مطابق پاکستان کے 50 شہروں میں یونیورسٹیوں، کالجوں یہاں تک کہ سکولوں کے او لیول، اے لیول طالب علم بھی اس مارچ میں شامل ہوں گے۔

ملک بھر میں 29 نومبر کو طلبہ کا یکجہتی مارچ ہونے جارہا ہے۔

طالب علم اس مارچ کے لیے کیا تیاریاں کر رہے ہیں یہ سب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی مرکزی قیادت ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دینے میں مصروف ہے۔

چند طالب علموں نے لاہور کی گرو مانگٹ روڈ پر واقع ایک ریستوران میں آ کر اپنا موقف سننے کی دعوت دی۔ وہاں پہنچے تو یہ ایک معمولی سا ہوٹل تھا جہاں سو روپے کی بریانی کی پلیٹ اور بیس روپے میں چائے کا ایک گرم گرم کپ مل جاتا ہے اور آپ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتے ہیں۔

یہاں موجود طالب علموں میں آمنہ وحید تھیں جو بیکن ہاؤس یونیورسٹی سے لبرل آرٹس میں بی ایس آنرز کر رہی ہیں۔ قمر عباس تھے جو پنجاب یونیورسٹی سے زراعت میں بی ایس آنرز کے طالب علم ہیں جب کہ تیسرے تھے حسنین جمیل فریدی جن کی مطالعہ پاکستان میں  ایم فل کی ڈگری حال میں ہی پنجاب یونیورسٹی نے کینسل کر کے انہیں یو نیورسٹی سے نکال دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسنین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب ان کا یونیورسٹی میں داخل ہونا بھی ممنوع کر دیا گیا ہے۔ طالب علموں سے باری باری بات کی تو معلوم ہوا کہ ان تینوں کا تعلق نوکری پیشہ گھرانوں سے ہے۔ حسنین جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کا کوئی پرانا کیس نکال کر انہیں یونیورسٹی سے خارج کیا اور نکالنے سے پہلے انہیں اپنی صفائی دینے کے لیے بھی کسی کمیٹی میں پیش ہونے کی مہلت نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ وکلا، انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی ہیں اور وہ جلد قانونی مدد سے اپنی ڈگری کا کیس آگے لے کر جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ دیگر یونیورسٹیوں میں بھی کئی طلبہ کو فارغ کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ہمارا طلبہ مارچ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔

 آمنہ وحید نے بتایا کہ جمعے کے روز ہونے والے طلبہ  یکجہتی مارچ میں ان کے ساتھ مزدور، وکلا، ڈاکٹرز اور ٹریڈ یونینز بھی شامل ہیں مگر اس مارچ کی قیادت طالب علم ہی کریں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کہیں ان کا مارچ یا تحریک ہائی جیک تو نہیں ہو جائے گی تو آمنہ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ جب مزدور، وکلا اور دیگر احتجاج کرتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیوں کہ ہم ان کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔

قمر عباس نے بتایا کہ طلبہ کے اس مارچ کا مقصد طالب علموں کو ان کے حقوق دلوانا ہے جن میں سب سے اہم اظہار رائے کی آزادی ہے۔

اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا بھی ہے تو اسے تنگ کیا جاتا ہے ہراساں کیا جاتا ہے۔ طلبہ کو یونیورسٹیوں میں سیاسی سرگرمیوں سے روکا جاتا ہے اور ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ اسے ختم کیا جائے، طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے۔

ان کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی ہراسانی کو روکنے والی کمیٹیوں میں طالب علموں کی نمائندگی کو شامل کیا جائے اور فیس کم کی جائے۔

اس مارچ میں شامل طالب علموں کے حوالے سے ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ کھاتے پیتے خاندانوں کے بچے ہیں۔ اس حوالے سے آمنہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی طالب علم کا تعلق امیر گھرانے سے ہے بھی تو اس وقت اس کا سٹیٹس ایک طالب علم کا ہے اور اس کے بھی وہی مسائل ہیں جو کسی بھی دوسرے طالب علم کے ہیں۔ اسے بھی وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو سب کا حق ہیں۔

طالب علموں کا یہ یکجہتی مارچ 29 نومبر کو دوپہر 2 بجے استنبول چوک سے شروع ہو کر چئیرنگ کراس مال روڈ پر اختتام پذیر ہوگا۔  

ان طالب علموں کے مطابق پاکستان کے 50 شہروں میں یونیورسٹیوں، کالجوں  یہاں تک کہ سکولوں کے او لیول، اے لیول طالب علم بھی اس مارچ میں شامل ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ مستقبل میں دھرنے بھی پلان کر سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس