دہلی: خواتین پولیس کے لیے گلابی سکوٹر اور ہیلمٹ کیوں؟

بھارت کے دارالحکومت کی پولیس نے خواتین کے خصوصی پیٹرولنگ یونٹ کے لیے گلابی رنگ کے سکوٹرز اور ہیلمٹ متعارف کرائے ہیں جبکہ ناقدین اس نئے اقدام کے ذریعے دہلی پولیس پر ’صنفی تفریق‘ برتنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

دہلی پولیس کی جانب سے حال ہی میں 16 افسران پر مشتمل ایک پولیس ڈویژن تشکیل دی گئی تھی جس کا مقصد خواتین تک فورس کی رسائی کو بڑھانا تھا (ٹوئٹر/ اے این آئی)

بھارت کے دارالحکومت کی پولیس نے خواتین کے خصوصی پیٹرولنگ یونٹ کے لیے گلابی رنگ کے سکوٹرز اور ہیلمٹ متعارف کرائے ہیں جبکہ ناقدین اس نئے اقدام کے ذریعے دہلی پولیس پر ’صنفی تفریق‘ برتنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

ناقدین نے دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ’صنفی دقیانوسی تصورات‘ کو فروغ ملے گا۔

دہلی پولیس کی جانب سے حال ہی میں 16 افسران پر مشتمل ایک پولیس ڈویژن تشکیل دی گئی تھی جس کا مقصد خواتین تک فورس کی رسائی کو بڑھانا تھا۔

اس ڈویژن میں شامل پولیس افسران نے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے ستمبر سے ہی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں گشت کرنا شروع کر دیا تھا، شہر کے یہ علاقے خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔

بھارتی ریاست اتر پردیش میں 2007 سے 2009 تک ڈائریکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر خدمات انجام دینے والے وکرم سنگھ نے دہلی پولیس کی جانب سے گلابی رنگ کے سکوٹرز اور ہیلمٹ متعارف کرانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر یونیفارمز کو کسی بھی استثنیٰ سے مبرا ہونا چاہیے۔

انہوں نے بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ ’جب کوئی افسر یونیفارم پہنے تو اس میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔‘

’یہ ایک جیسی ہوتی ہے اسی لیے تو اسے یونیفارم کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی افسر خاتون ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی گاڑی کا رنگ ہی تبدیل کر دیا جائے۔ یہ یونیفارم کی روح کے خلاف ہے۔ ان کے یونیفارمز، گاڑیوں یا ہتھیاروں میں کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس خصوصی یونٹ کو 2014 میں بنانے کی منظوری دی گئی تھی جب کہ اس دوران یہ یونٹ کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ پہلے پہل افسروں کو بائیکس دیے گئے تاہم بعد میں ان کو سکوٹرز سے تبدیل کر دیا گیا۔

یہ سکوٹرز شروع میں سفید رنگ کے تھے تاہم بعد میں ان کو گلابی رنگ میں رنگ دیا گیا۔

شمال مشرقی دہلی کی ڈپٹی کمشنر آف پولیس وید پرکاش کا کہنا ہے کہ اس یونٹ کے افسران صبح اور شام کی دو شفٹس میں کام کرتے ہیں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچیاں صبح سکول کے لیے روانہ ہوتی ہیں اور شام میں خواتین پارکوں اور مارکیٹوں کا رخ کرتی ہیں۔

انہوں نے اخبار کو بتایا: ’جب مرد اور خواتین افسروں کی یونیفارم ایک جیسی تھی تب خواتین ٹیمز کو دور سے پہچاننا مشکل کام تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ خواتین افسروں کی ٹیمز کی سٹرکوں پر موجودگی نمایاں طور پر نظر آئے تاکہ ان تک خواتین کی رسائی کو بڑھایا جا سکے۔‘

ایک خاتون کانسٹیبل نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’گلابی رنگ کے انتخاب کا مقصد خواتین میں اعتماد پیدا کرنا تھا تاکہ وہ کسی بھی جھجھک کے بغیر ہم سے رابطہ کر سکیں۔ خواتین ہمیں دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہیں اور اس اقدام کے بعد ہی پولیس اور عوام میں روابط میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہمیں چلی پاؤڈر، جاسوسی کے لیے کیمرے اور مرچوں کے سپرے بطور ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔‘

یہ تنقید ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے خواتین کو مندر میں داخل ہونے پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوبی ریاست کیرالہ کے سابارمالا مندر میں دہائیوں سے 10 سال سے 50 سال کی عمر تک کی خواتین کے داخلے پر پابندی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس ستمبر میں خواتین پر اس پابندی کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس فیصلے سے انتہا پسند ہندووں میں غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے اس فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے۔

گذشتہ منگل کو مندر میں داخل ہونے والی ایک خاتون کو اس وقت ہسپتال منتقل کرنا پڑا جب مشتعل مظاہرین نے ان پر مرچوں کے سپرے سے حملہ کر دیا تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا