’یونیورسٹیاں قائد تیار کرتی ہیں اور طلبہ یونینز اس کا لازمی جزو ہیں‘

وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی طرز پر جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق وضع کیے جائیں گے۔

29 نومبر کو لاہور سمیت کئی شہروں میں  طلبہ یکجہتی مارچ کے تحت ریلیاں نکالی گئیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی طرز پر جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق وضع کیے جائیں گے۔

عمران خان نے اتوار کی شام اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’ہم  معروف بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے بہترین طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق وضع کریں گے تاکہ ہم طلبہ یونینز بحال کر سکیں اور انھیں اس قابل بنا سکیں کہ وہ نوجوانوں کی تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ وہ مستقبل کے لیڈر بن سکیں۔‘

انھوں نے اپنی سلسلہ وار ٹویٹس کے دوسرے حصے میں طلبہ یونینز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹیاں ملک کے مستقبل کے لیڈر تیار کرتی ہیں اور طلبہ یونینز اس تیاری کے عمل کا لازمی جزو ہیں۔‘

’بدقسمتی سے پاکستان میں طلبہ یونینز تشدد پر اتر آئی تھیں اور انھوں نے علمی ماحول مکمل طور پر تباہ کر دیا۔‘

وزیراعظم عمران کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ لیے ملک بھر کے طلبا سڑکوں پر نکلے آئے تھے۔

دارالحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں 29 نومبر کو طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں بڑی تعداد میں طلبہ شریک ہوئے تھے۔

تاہم دوسری جانب آج یعنی اتوار کو لاہور میں انتظامیہ کی جانب سے طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد چھ افراد کے خلاف نقص امن، لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر جیسے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

یہ ایف آئی آر سول لائنز پولیس سٹیشن کے سب انسپیکٹر محمد نواز کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔

نامہ نگار فاطمہ علی کے مطابق طلبہ کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 29 نومبر کو ساڑھے چار بجے مال روڈ پر ایک ریلی جس کی قیادت عمار علی جان، فاروق طارق، عالمگیر وزیر، اقبال لالہ اور کامل خان کر رہے تھے، جبکہ دوسرے شرکا کی تعداد تقریباً اڑھائی سو سے تین سو تھی۔ ریلی نے فیصل چوک پہنچ کر زبردستی دونوں اطراف کی ٹریفک بلاک کر دی اور سٹیج بنا کر بذریعہ لاؤڈ سپیکر تقریریں شروع کر دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف آئی آر کے مطابق ’مقررین ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور نعرہ بازی کر کے طلبہ کو اکساتے رہے جس کی موبائل فون سے ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ مقررین کی شناخت بذریعہ کیمرہ اور موبائل فون کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ جن کو متعدد بار بذریعہ میگا فون منع کیا گیا مگر وہ باز نہ آئے۔ مسمی عالمگیر وزیر وغیرہ کے خلاف رپورٹ نمر 40 مورخہ 30، نومبر 2019 کو روزنامچہ میں درج کی گئی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایف آئی آر کی تاریخ یکم دسمبر 2019 بوقت صبح 4 بج کر 10 منٹ ہے جبکہ تھانہ سے رپورٹ کی روانگی کی تاریخ 2 دسمبر 2019 صبح 5 بجے ہے جو کہ ایک قانونی سقم ہے کیونکہ دو تاریخ یکم دسمبر کی رات 12 بجے سے شروع ہو گی۔

اس ایف آئی آر میں نامزد عالمگیر وزیر مبینہ طور پر 30 نومبر کی شام تین بجے سے پنجاب یونیورسٹی سے لاپتہ ہیں۔

عالمگیر وزیر کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کے خلاف طلبہ لاہور میں کیمپس پل پر احتجاج کرنے نکلے تھے تاہم بعد میں ٹریفک میں خلل کے باعث طلبہ نے کیمپس پل سے مارچ کرتے ہوئے وی سی ہاؤس پنجاب یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر علی اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’عالمگیر وزیر کا تاحال کچھ پتا نہیں چلا۔ طلبہ تھانے میں موجود ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹ فیڈریشن نے ’پیر کو 12 بجے دو پہر یونیورسٹی میں عالمگیروزیر کی بازیابی کے لیے احتجاج اور مارچ کی کال دی ہے اور اگر کل تک عالمگیر کا پتہ نہ چلا تو ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں منگل کو احتجاج کی کال دی جائے گی۔‘

اس سے قبل علی اشرف نے بتایا تھا کہ عالمگیر وزیر کا تعلق وزیرستان سے ہے اور وہ طلبہ مارچ میں شرکت اور اپنی ڈگری لینے کے لیے چند روز قبل لاہور آئے تھے۔ وہ یونیورسٹی ہاسٹل میں ٹہرے ہوئے تھے اور انہیں آخری بار یونیورسٹی کی کینٹین پر 30 نومبر کی دوپہر دیکھا گیا تھا۔

علی اشرف نے بتایا کہ ’عالمگیر وزیر جینڈر سٹڈیز میں آنرز کے طالب علم تھے اور بروز اتوار ان کی کانووکیشن تھی جس میں انہیں ڈگری ملنا تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’عالمگیر پنجاب یونیورسٹی میں پختون سٹوڈنٹ کونسل کے سابق چئیرمین بھی رہ چکے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کے طلبہ نے عالمگیر کی گمشدگی کی رپورٹ رجسٹر کروانے کے لیے تھانہ مسلم ٹاؤن میں درخواست دی ہے جس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، جبکہ ایک درخواست وی سی پنجاب یونیورسٹی کو بھی لکھی گئی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے لاہور اور پنجاب پولیس کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس پر بات کرنے سے معذرت کر لی جبکہ پنجاب یونیورسٹی نے بھی اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد اقبال خان کوئی طالب علم نہیں بلکہ مردان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر قتل کیے جانے والے طالب علم مشعال خان کے والد ہیں جو طلبہ مارچ میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے جبکہ ایک اور نامزد ملزم فاروق طارق ایک عمر رسیدہ، سیاسی و سماجی رہنما، مصنف اور ناشر ہیں جو طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ میں شریک ہوئے۔ اسی طرح ایک اور نامزد ملزم عمار علی جان لاہور کے ایف سی کالج یونیورسٹی  کے استاد ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان