عمران خان کی زندگی پر پتلی تماشہ بنانا چاہتا ہوں: عبدالعزیز

رفیع پیر پپٹ فیسٹیول میں آنے والے فنکار عبدالعزیز نے عمران خان کے دھرنے اور شادی کا بھی پتلی تماشہ کیا تھا

پتلی تماشا

عبدالعزیز خان اکبر بادشاہ، سسی پنوں، لیلیٰ مجنوں اور عمران خان سمیت سب کی کہانیوں کو پتلی تماشے کے ذریعے دکھاتے ہیں۔

رفیع پیر انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول میں ملتان سے آنے والے اس 25 سالہ فنکار کی زندگی پتلیاں نچاتے گزر گئی۔ ان کی بیوی کشمیرو، جس کے چہرے پر وقت سے پہلے عمررسیدہ ہونے کے آثار صاف جھلکتے ہیں، اپنے شوہر کے ساتھ اسی کام میں اس کا ہاتھ بٹاتی ہے۔

عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ان کے آبا و اجداد اکبر بادشاہ کے زمانے سے پتلی تماشے کا کام کر رہے ہیں اور اب یہ اور ان کے بعد ان کے بچے اسی کام کو ذریعہ معاش بنائیں گے۔

ہر برس یہ لوگ رفیع پیر انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول میں حصہ لینےملتان سے لاہور آتے ہیں۔ پہلے یہ زیادہ دن لاہور رکتے تھے مگر اب صرف تین روز کے لیے ان کا قیام ہوتا ہے۔

الحمرا آرٹ کونسل، ملتان اور کراچی آرٹ کونسل میں بھی ان کے پتلی تماشے کے چرچے ہیں۔ 

’میں جھگیوں، اسکولوں، گلیوں اور دیگر تقریبات میں بھی جا کر پتلی تماشہ دکھاتا ہوں۔‘ اپنی ساری کہانیاں بھی عبدالعزیز خود ہی لکھتے ہیں۔ ’میرے پاس قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کی کہانی بھی ہے، عمران خان نے جب 2014 میں دھرنا دیا اور پھر اس کے بعد شادی کی اس کی کہانی بھی لکھی تھی میں نے۔‘

ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ موجودہ وزیر اعظم پر ایک اور کہانی لکھیں۔ ’میں کہانی میں انہیں اکبر کی طرح عمران خان بادشاہ دکھاؤں گا اس کہانی میں میں ان کی بیگم نہیں دکھاؤں گا، ہاں البتہ شیخ رشید کو بھی اس پتلی تماشے میں کردار دوں گا کیونکہ وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میرے پاس ایک ہزار سے زیادہ پتلیاں ہیں جن میں سے 30 کے قریب میں ساتھ لایا ہوں شو کے لیے۔ ابھی میں کہانی شروع کروں گا اور دیکھنا سارے بچے میرے پاس آجائیں گے۔‘

رفیع پیرانٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول میں عبدالعزیز کا شو دیکھنے کے لیے بچوں اور بڑوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

بچوں کو ان کا شو اچھا بھی لگا مگر آٹھ سالہ ایان کا خیال مختلف ہے۔ ’مجھے یہ روایتی پتلی تماشا سمجھ میں نہیں آیا، ایسے لگا کہ جیسے یہ سب ڈانس اور گانوں کے بارے میں تھا اور زبان بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر پتلیاں اچھی لگیں۔‘

30 سالہ روبینہ قادر جو اپنے بیٹے کے ساتھ اس فیسٹیول میں آئیں۔ ان کے خیال میں روایتی پتلی تماشا بڑوں کے لیے تو ٹھیک ہے مگرچھوٹے بچوں کا ان کی کہانیوں کو سمجھنا ذرا مشکل ہے: ’ماڈرن پتلی تماشے اچھے تھے جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت بھی کہانیوں کے ذریعے کی جا رہی ہے اور ان میں اخلاقی سبق بھی ہوتے ہیں،  بچے ایسی کہانیوں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔‘

40 سالہ شاہد جو اپنے چار بچوں کے ہمراہ فیسٹیول میں آئے ان کے خیال میں روایتی پتلی تماشہ اب تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے۔ ’کبھی کسی بڑی سالگرہ کے موقع پر آپ پتلی تماشے دیکھ لیتے ہیں یا پھر آپ فوڈ سٹریٹ جائیں خاص طور پر انہیں دیکھنے، اتنا وقت نہیں رہا، آج بچوں کو دکھا رہے ہیں تاکہ انہیں پتہ ہو کہ ہمارا کلچر کیا ہے اور بچے بھی اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‘

27 سالہ مہک مرتضی کے خیال میں یہ روایتی پتلی تماشے اپنے بچوں کو دکھانا بہت ضروری ہے۔ ’جیسے ہم بچپن میں یہ دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں ویسے ہی میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھی یہ دیکھیں کیونکہ اب اس آرٹ کو زندہ رکھنے والے چند لوگ ہی رہ گئے ہیں، یہ پتلی تماشہ شاید بچوں کو سمجھ نہ آئے مگر انہیں اس کا پتہ ہونا چاہیے تاکہ جنریشن گیپ ختم ہو سکے ہمارے اور ان کے بیچ میں۔ میرے خیال میں بچے خوش ہوتے ہیں بلکہ اس طرح ہم اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔‘

 رفیع پیر انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول میں عبدالعزیز ان تین روز میں 30 سے 40 ہزار کما لیں گے۔ جس کے بعد یہ واپس اپنے شہر لوٹ کر پھر سے گلی کوچوں، سکولوں یا دیگر تقریبات میں بلائے جانے کا انتظار کریں گے۔ ان کی خواہش ہے کہ انہیں الحمرا آرٹ کونسل لاہور میں مستقل  نوکری مل جائے تاکہ مستقل آمدن آتی رہے مگر اس کے بغیر بھی وہ اپنے کام سے مطمئن ہیں۔‘

’لوگ کہتے ہیں پتلی تماشے کا دور ختم ہو گیا، میں کہتا ہوں کہ میرا کام مرا نہیں ہے ابھی اور نہ میں اسے مرنے دوں گا، جب تک میری ہمت ہے اسے زندہ رکھوں گا اور میرے بعد میرے بچے اسے لے کر چلیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی فن