آرمی چیف ایکسٹینشن:کیا حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آسکتی ہیں؟

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آرمی ایکٹ میں ترمیم جلد ہی پارلیمنٹ سے منظور کروا لے گی لیکن اس قانون سازی کے لیے عددی اکثریت حاصل نہ ہونے پر حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی۔

 جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے نئے انتخابات اور وزیر اعظم کی تبدیلی سے قبل آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون میں ترمیم پر حکومت کی حمایت نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ (تصویر: قومی اسمبلی فیس بک پیج)

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے حکومت کو  چھ ماہ کے اندر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کا حکم دیا گیا تھا، جس کے بعد صدرِ پاکستان عارف علوی نے آج (چار دسمبر) کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آرمی ایکٹ میں ترمیم جلد ہی پارلیمنٹ سے منظور کروا لے گی لیکن اس قانون سازی کے لیے عددی اکثریت حاصل نہ ہونے پر حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی۔

گذشتہ روز وزیراعظم کی زیرِ صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں بھی آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر غور کیا گیا۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام سمیت اپوزیشن جماعتوں میں بھی مشاورت جاری ہے۔

 جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے نئے انتخابات اور وزیر اعظم کی تبدیلی سے قبل آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون میں ترمیم پر حکومت کی حمایت نہ کرنے کی تجویز دی ہے، جب کہ مسلم لیگ ن نے تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد حتمی فیصلہ کرنے کا مشورہ دیاہے۔

پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے خطاب میں واضح کرچکے ہیں کہ پہلے وزیراعظم تبدیل ہوں گے، پھر پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون تبدیل ہوگا۔ اسی طرح جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے اور انہیں اس اسمبلی سے قانون سازی قبول نہیں، لہذا پہلے نئے انتخابات کرائے جائیں اور پھر نئی اسمبلی سے اس قانون میں ترمیم ہونی چاہیے۔

اپوزیشن جماعتوں کا فیصلہ

جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے  گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں کی یہی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون میں ترمیم کے احکامات پر نئے انتخابات سے قبل اس قانون سازی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں رہبر کمیٹی کے کنوینیئر اکرم درانی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس قانونی ترمیم پر موجودہ حکومت کا ساتھ نہ دینے کا  کہا گیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس معاملے میں تمام اپوزیشن متحد ہو پائے گی یا مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور دھرنے کی طرح ہر جماعت اپنا الگ موقف اپنائے گی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’پہلے بھی ہر کام باہمی رضامندی سے کیا گیا تھا اور اب بھی تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں کہ جس اسمبلی کو وہ جعلی قرار دیتے ہیں، وہاں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا قانون کیسے پاس کیا جائے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’تفصیلی فیصلہ آنے پر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن بھی آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد حتمی حکمت عملی تیار کرنے کی حامی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس اہم معاملے پر بھی وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے الزام تراشیوں سے معاملات میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں مشکلات ہوسکتی ہیں، تاہم جب سمری ایوان میں پیش ہوگی تو آئین وقانون کے مطابق لائحہ عمل بنائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’وزیر اعظم ہر معاملے میں من مانی کرنا چاہتے ہیں، اس ترمیم میں کوئی غیر آئینی کام کیا گیا تو حصہ نہیں بنیں گے۔‘

پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی پی پی آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق آئین و قانون کے مطابق حکمت عملی بنائے گی لیکن اس پر حتمی لائحہ عمل سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے اور حکومتی مسودہ دیکھنے کے بعد بنایا جائے گا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کی تبدیلی کے بغیر یہ ترمیم نہیں ہوسکتی تو کیا پارٹی کا یہی موقف ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’بلاول بھٹو زرداری کا بیان یہ تھا کہ ہوسکتا ہے آرمی ایکٹ میں تبدیلی سے پہلے وزیراعظم تبدیل ہوجائیں تاہم اسے مشروط نہیں کیا گیا، مگر پارٹی میں اس بارے میں مشاورت جاری ہے اور جو بھی حتمی فیصلہ ہوگا، اس کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا۔‘

حکومتی حکمت عملی

وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آرمی ایکٹ اور معاشی صورت حال پر مشترکہ لائحہ عمل کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اہم معاملات پر اداروں کے درمیان اور اپوزیشن کے ساتھ اتفاق ہونا چاہیے۔ امریکی صدر نے بھی اداروں میں نئی ڈیل کی بات کی تھی جس سے امریکہ بدل گیا تھا، یہاں بھی ایسا کرنا ضروری ہے، جب کہ چیف جسٹس بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔‘

فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف سول اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور وزیراعظم کی سوچ بھی یہی ہے۔ اداروں کے سربراہان ڈائیلاگ کریں اور اہم اداروں کا توازن بحال کریں۔

وفاقی وزیر کے مطابق: ’پاکستان میں کوئی ادارہ دوسرے ادارے کی طاقت نہیں لے سکتا، لہذا بہتر ہوگا کہ تمام ادارے نئی ڈیل کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست