پشاور کا ایڈورڈز کالج کیسے مسیحی برادری کو احتجاج پر مجبور کرسکتا ہے؟

خیبر پختونخوا کی اس 120 سال قدیم درس گاہ کے نجی یا سرکاری ہونے اور پرنسپل کی تعیناتی کا تنازع یہاں کے تعلیمی ماحول کو خراب کر رہا ہے۔

ایک ذیلی نکتہ یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایڈورڈز کالج کے پرنسپل کی تعیناتی کون کرے گا۔ پرنسپل مسیحی رہے گا یا کوئی مسلمان بھی اس عہدے پر آ سکتا ہے۔(تصویر: کالج ویب سائٹ)

پشاور کی 120 سال پرانی معیاری درس گاہ ایڈورڈز کالج کی ملکیت اور پرنسپل کی تعیناتی کا مسئلہ عدالتوں تک جا پہنچا ہے، جس سے طلبہ پریشان ہیں۔

چرچ آف پاکستان کے بشپ ہمفرے سرفراز پیٹر نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو چیلنج دیا ہے کہ اگر ایڈورڈز کالج کے موجودہ پرنسپل نئیر فردوس کے خلاف کسی قسم کی کرپشن ثابت ہوئی تو وہ سپریم کورٹ سے اپنا کیس واپس لے لیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ثبوت دینے میں ناکام ہوتی ہے تو نہ صرف انہیں پیچھے ہٹنا ہوگا بلکہ معافی بھی  مانگنی ہوگی۔

بشپ سرفراز نے حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ میں اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو، جس میں کہا گیا کہ ایڈورڈز کالج ایک نجی ادارہ نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت ہر سال اس ادارے کو فنڈز دیتی رہی ہے، سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ تاہم دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں واضح طور پر اعلان کیا کہ ایڈورڈز کالج ایک نجی ادارہ ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس کی کوئی نیشنلائزیشن نہیں ہو رہی ہے۔ یہ مسیحیوں کی پراپرٹی ہے اور رہے گی۔ میری ذات اور حکومت پاکستان کو اس میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘

ایڈورڈز کالج 1900 میں چرچ مشن سوسائٹی نے پشاور چھاؤنی کے علاقے میں قائم کیا تھا۔ تقسیمِ ہند سے قبل مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسی اہم شخصیات یہاں آ چکی ہیں۔ ہر سال ہزاروں طلبہ و طالبات اس قدیم اور باوقار تعلیمی درس گاہ سے فارغ التحصل ہوتے ہیں۔ اس تنازع کا یہاں کے تعلیمی ماحول پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے اس واضح بیان کے باوجود بشپ سرفراز جو پورے پاکستان کے مسیحی حلقوں کے رہنما ہیں، اپنا مقدمہ کیوں سپریم کورٹ لے کر گئے؟ اور پشاور ہائی کورٹ نے ان کے موقف کے خلاف فیصلہ کن حقائق کی بنیاد پر دیا؟

پشاور کی قدیم اور معیاری درس گاہوں میں سے ایک ایڈورڈز کالج کا معاملہ پچھلے کئی سالوں سے چند بنیادی نکتوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ نکتے یہ ہیں کہ کیا ایڈورڈز کالج چرچ آف پاکستان کے ماتحت ایک نجی ادارہ رہے گا یا صوبائی حکومت کا اس پر اختیار ہے؟ دوم، کالج کی پراپرٹی پر کس کا حق ہے؟ کیا دونوں یا کسی ایک فریق کے پاس ان دعوؤں کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت ہیں؟

علاوہ ازیں، ایک ذیلی نکتہ یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایڈورڈز کالج کے پرنسپل کی تعیناتی کون کرے گا۔ آیا پرنسپل مسیحی رہے گا یا کوئی مسلمان بھی اس عہدے پر آ سکتا ہے۔ پرنسپل کے عہدے کا اشتہار دینا بھی اس کالج میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ایڈورڈز کالج کے یہ مسائل بنیادی طور پر کالج کے عملے، حکومت اور بشپ کے درمیان چل رہے ہیں۔ تینوں ان ایک دوسرے کے خلاف اس قدر برسرپیکار رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے کالج میں مختلف مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور بات طلبہ کے احتجاج تک پہنچ گئی۔ نتیجتاً طلبہ بھی اس سیاست کا حصہ بن گئے۔ 

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایڈورڈز کالج کے معاملے میں حکومت کا رویہ اور کردار مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ کبھی وہ کالج کے سٹاف اور بشپ کے درمیان جھگڑے میں ایک تو کبھی دوسرے فریق کا ساتھ دیتی نظر آئی ہے۔

بشپ سرفراز پیٹر کے مطابق 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو انھوں نے تمام نجی اداروں کی نیشنلائزیشن کا نعرہ لگایا۔ اس زمانے میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے چرچ کا ساتھ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایڈورڈز کالج کی نشینلائزیشن نہیں کرنے دیں گے کیونکہ ان کے مطابق اس پر اقلیت کا حق تھا۔

بشپ سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت گورنر ارباب سکندر اور وزیر اعلی مفتی محمود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم اس کا بورڈ آف گورنرز ایسا بنا دیں گے جس سے یہ احساس ہوگا کہ حکومت بھی اس میں شامل ہے لیکن یہ نیشنلائزڈ بھی نہیں ہوگی۔‘

لہذا 1974 میں ایک ایسے بورڈ آف گورنرز کا اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق صوبے کے گورنر کو اس کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس میں وائس چیئرمین بشپ کے علاوہ دس اور ارکان بھی شامل تھے۔ بشپ کے مطابق اس بورڈ آف گورنرز کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس کے اندر بنائی گئی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین بشپ تھے۔ یہ کمیٹی کالج کے تمام اہم فیصلوں سے لے کر پرنسپل کی تعیناتی تک تمام ذمہ داریاں انجام دیتی تھی۔

’اس وقت چونکہ فاٹا خیبر پختونخوا سے الگ تھا لہذا گورنر زیادہ تر اپنے ہی کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ حقیقتاً گورنر کالج کے بورڈ آف گورنرز میں برائے نام چیئرمین ہوا کرتے تھے اور کالج کے تمام امور بشپ پر چھوڑ رکھے تھے۔ یہ  سب کچھ بہت احسن طریقے سے چلتا رہا۔ اگر چہ 80 کی دہائی میں مسیحی پرنسپل کے عہدے پر اعتراض ہوا تھا لیکن تب حکومت نے چرچ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک نجی ادارہ ہے لہذا پرنسپل بھی چرچ کا ہوگا۔

2009 کے بعد دوبارہ یہ معاملہ اٹھایا گیا کہ پرنسپل غیر مسیحی ہوگا۔ لیکن ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ دراصل حکومت کو کالج کے اندر سے ایک سازشی ٹولہ اکساتا رہتا ہے اور یہ ان ہی کی کارستانی تھی۔‘

سرفراز پیٹر کے مطابق کالج کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے اور اقربا پروری کی روش جاری رکھنے کے لیے کالج کے عملے نے چرچ کی جانب سے تعینات کیے گئے غیرملکی مسیحی پرنسپلز کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا۔ ان کے ایک امریکی پرنسپل کو نامعلوم افراد کی جانب سے مارا پیٹا گیا۔ ان کا پاسپورٹ پھاڑ دیا گیا،  یہاں تک کہ انہیں غیرملکی ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ مشنری تھے اور خالصتاً خدمت کے جذبے کے تحت اس کالج میں آئے تھے۔

’ان ہی میں سے ایک ٹائٹس پرسلے تھے۔ ان کا اور ہمارا خیال تھا کہ اس کالج کو 100 سال ہو گئے ہیں لہٰذا اب اس کو ترقی دے کر یونیورسٹی کا درجہ دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم اس وقت کے صدر آصف زرداری سے ملے اور انھوں نے فوراً ہی ہمیں ایک ہی ملاقات میں اس کی اجازت دے دی۔ جب کالج کے کچھ اساتذہ کو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز میں 70 فیصد ارکان چرچ کے ہوں گے تو انہیں یہ بات پسند نہیں آئی اور گورنر انجینیئر شوکت کو اُکسا کر سب ہمارے خلاف ہو گئے۔ ٹائٹس کو اتنا تنگ کیا گیا کہ 2013 کے اواخر میں ان کو برطرف کر دیا گیا۔ ان کے جاتے ہی چرچ کے علم میں لائے بغیر پرنسپل کے عہدے کو ایڈورٹائز کر دیا گیا۔‘

چرچ آف پاکستان کے بشپ ہمفرے سرفراز پیٹر

2013 کے بعد حکومت خیبر پختونخوا نے ایڈورڈز کالج کے عہدے پر مسلمانوں کو بھی دعوت دی۔ جس پر تین عیسائیوں کے علاوہ 70 کے قریب مسمانوں نے درخواست دی۔ ان ہی میں سے ایک مسیحی بریگیڈیئر نیئر فردوس بھی تھے۔

’میں نے خود انجنیئیر شوکت سے اس وقت بات کی تھی کہ چونکہ ایڈورڈز کالج چرچ کا ادارہ ہے لہٰذا پرنسپل بشپ کی مرضی سے ایک مسیحی ہی آئے گا۔ اس پر کوئی مسلمان کیسے آ سکتا ہے، مالک تو ہم ہیں۔ تو انھوں نے غصے سے مجھے کہا کہ اونر کیا چیز ہوتی ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہ کریں۔ میں نہیں چاہتا کہ چرچ احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکلے، ایسا کرنا ہماری شان کے خلاف ہوگا۔ بعد میں پرویز خٹک نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کچھ کریں گے۔‘

بشپ سرفراز کا مزید کہنا ہے کہ ٹائٹس کے جانے کے بعد جس عہدے کا اشتہاردیا گیا، اس پر نیئر فردوس نے چرچ ہی کے کہنے پر درخواست دی تھی۔

’نئیر ایک تجربہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے۔ تمام ایف جی سکولوں کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ نسٹ اور آرمی سکولوں کے اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے آنے کے بعد ان اساتذہ کو عہدوں سے ہٹا دیا جو اقربا پروری کی بنیاد پر ان پر براجمان تھے۔ مثلاً ایم اے انگلش تھرڈ ڈویژن میں پاس کرنے والے ایک لائبریرین کو انگلش ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ لگایا گیا تھا۔ اس طرح کئی اور بدانتظامیاں چل رہی تھیں۔‘

بشپ نے بتایا کہ ان اقدامات کی وجہ سے کالج کا کچھ عملہ پرنسپل کے خلاف ہو گیا اور اس لڑائی میں طلبہ کو بھی گھسیٹ لیا گیا۔ ’طلبہ تو معصوم ہوتے ہیں، جب تک ان کو اکسایا نہ جائے وہ کبھی ان معاملات میں نہیں پڑتے۔ بریگیڈیئر نئیر پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کالج میں نوکری دی ہے۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کا ایک بیٹا آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا تھا۔ بیٹی انگلش میں ٹاپ کر چکی تھی اور بہو کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ یہاں پر مختلف زبانیں سکھاتی تھیں۔ انہیں میرٹ کی بنیاد پر نوکری ملی تھی۔ لیکن جب کالج میں یہ نعرہ بلند ہوا کہ ہم ان کا وہ حال کریں گے جو مشعال کا کیا گیا تھا تو وہ تینوں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔‘

اس تمام وضاحت کے بعد بشپ کا کہنا ہے کہ جہاں تک کالج کی پراپرٹی کا تعلق ہے اس کے سارے ثبوت ان کے پاس ہیں۔ نیئر فردوس کے حوالے سے انھوں نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ انہیں ثبوت دکھائے جائیں۔

’میں نے سپریم کورٹ میں چھ نومبر کو مقدمہ دائر کر دیا ہے کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ہی 2016 کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ لہٰذا اب امید ہے کہ سپریم کورٹ ہماری بات سنے گی۔ میں کسی طور نہیں چاہتا کہ پاکستان کی مسیحی برادری احتجاج کے طور پر سڑکوں پر آئے۔ کیونکہ اس سے ملک کی بدنامی ہوگی۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے اور کسی تیسرے شخص کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ایڈورڈز کالج کے ایک اہم عہدے پر فائز شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بشپ اور پرنسپل دونوں نے مل کر مذہب کارڈ کھیلا ہے اور پاکستان کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ کالج ان کے نام ہو جائے اور موجودہ پرنسپل مزید کئی سالوں کے لیے اس عہدے پر براجمان رہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ کالج کی پراپرٹی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے اونرشپ کی کسی قسم کے دستاویزات ابھی تک کسی کو نہیں ملی ہیں۔ یہاں تک کہ جب برطانوی پرنسپل کینن نے اس کو یونیورسٹی کا درجہ دینا چاہا تو زمین کی اونرشپ کا مسئلہ بیچ میں آیا۔ انہوں نے اسے انگلینڈ کے آرکائیوز میں ڈھونڈا لیکن انہیں نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ کالج چونکہ کینٹ میں ہے لہٰذا اصولاً کینٹ کی زمین لیز پر تو دی جا سکتی ہے لیکن کسی کے نام نہیں ہو سکتی۔ ایڈورڈز کالج 132 کنال پر محیط ہے۔ اس میں سے 22 کنال چرچ کے ہیں اور باقی زمین حکومت کی ہے۔ کچھ اس میں شاملات وغیرہ ہیں اور ایک اس میں پرانا کمشنر ہاؤس بھی شامل کر دیا گیا تھا کیونکہ جب کمشنر ہاؤس کو دوسری جگہ شفٹ کر لیا گیا تو کالج کے سٹاف نے دوڑ دھوپ کر کے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جس پر حکومت نے اپنے خرچے سے کالج کے عملے کے لیے مکان بنائے لیکن چرچ اب اس کو اپنی پراپرٹی قرار دے رہا ہے۔

’نئیر فردوس کی تعیناتی کے خلاف ایک شخص ملک ناز نے پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا اور ان کا موقف تھا کہ یہ تعیناتی جائز نہیں ہے۔ تاہم بشپ نے ہائی کورٹ جا کر بیان دیا کہ چونکہ یہ ایک نجی ادارہ ہے اور چرچ کے ماتحت ہے، مینجمنٹ ان کی اپنی ہے لہٰذا ان پر مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے۔ نتیجتاً ہائی کورٹ نے ملک ناز کی پٹیشن خارج کر دی۔‘

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ناز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور تقریباً دو سال ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں پڑا رہا۔ اس دوران خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملک ناز کے 2016  میں دائر کیے گئے مقدمے میں حکومت کو فریق نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ان کی بات سنی گئی۔ لہٰذا اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

ایڈورڈز کالج کے ذرائع کے مطابق اس دوران بشپ نے بھی ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ ہائی کورٹ اپنے 2016 کے فیصلے کے مطابق ایڈورڈز کالج کو باقاعدہ طور پر نجی ادارہ قرار دے اور حکومت کو ان کے معاملات میں مداخلت سے بھی روکا جائے۔

’اس اپیل کے بعد کالج کے سٹاف نے ایک اور رٹ دائر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 1972 میں نیشنلائزیشن ہوئی تھی اس لیے 1974 میں ایک بورڈ آف گورنرز بنا تھا جس کے بعد حکومت کالج کو ہر سال فنڈز دیتی رہی ہے۔ اس کے بعد حکومت نے ایک سی پی سی (سول پروسیجر کوڈ) کے تحت، جو کہ دھوکے کے ساتھ اگر ایک کیس جیت لیا جاتا ہے تو اس پر اپیل کرتے ہیں، نظرثانی کی اپیل کی۔ اس پر کورٹ نے اپنا پہلا فیصلہ ختم کیا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ کالج نجی ہے۔ عدالت کے نئے فیصلے کے بعد بشپ کے اس بورڈ آف گورنرز کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا گیا جو انھوں نے کالج کو اطلاع دیے بغیر بنایا تھا۔‘

کالج کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کالج کے لیے ایک الگ کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے جس کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس