افواہیں بے بنیاد، دعا منگی کے لیے کوئی تاوان نہیں مانگا گیا

انڈپینڈنٹ اردو نے اس خبر کی تصدیق کے لئے دعا منگی کے اہلِ خانہ اور پولیس سے رابطہ کیا جس کے بعد یہ معلوم ہوا کچھ میڈیا اداروں کی جانب سے صرف سنسی پھیلانے کے لئے یہ خبر شائع کی گئی ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

دعا منگی کے ماموں اعجاز منگی نے تاوان کی خبروں کی تردید کی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

آج صبح سے میڈیا میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اغوا کار دعا منگی کے اہل خانہ سے سے واٹس ایپ پر رابطہ کر رہے ہیں اور گزشتہ تین روز کے دوران واٹس ایپ پر تین مرتبہ کال کر چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اغواکاروں نے آخری بار رابطہ بدھ کی دوپہر دو بج کر 20 منٹ پر کیا تھا اور وہ دعا منگی کی رہائی کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس خبر کی تصدیق کے لیے دعا منگی کے اہلِ خانہ اور پولیس سے رابطہ کیا جس کے بعد یہ معلوم ہوا کچھ میڈیا چینلز کی جانب سے صرف سنسنی پھیلانے کے لیے یہ خبر شائع کی گئی ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

دعا منگی کے ماموں اعجاز منگی جو سندھ کے نامور نامہ نگار اور شاعر ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں اس بات کی تردید کرتا ہوں، ابھی تک دعا کے اغوا کاروں کی جانب سے  تاوان کے حوالے سے کوئی کال نہیں آئی۔ اگر پولیس کو اس حوالے سے کوئی معلومات تھی تو میڈیا کو خبر دینے کے بجائے ان کی ذمہ داری تھی کہ پہلے دعا کے اہلِ خانہ کے علم میں لائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میڈیا کی جانب سے بے بنیاد افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، آج ںہ صرف تاوان کی افواہ پھیلائی گئی بلکہ یہ افواہ بھی سننے میں آئی کہ دعا بازیاب ہو کر گھر آ گئی ہے۔ یہ تمام باتیں جھوٹ اور بے بنیاد ہیں۔ ہم بس چاہتے ہیں کہ دعا صحیح سلامت گھر واپس آجائے۔‘

اس معاملے کی مزید تصدیق کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع درخشاں پولیس تھانے کے ایس ایچ او اعظم گوپانگ سے بات کی تو انہوں بھی اس افواہ کی تردید کی اور کہا کہ ’دعا کے اغواکاروں کی جانب سے فی الحال تاوان کے لیے کوئی کال نہیں آئی۔ ہم بھرپور طریقے سے اس کیس کی تحقیقات کررہے ہیں۔ ‘

ایس ایچ او اعظم  گوپانگ نے واردات کے وقت گولی لگنے کی وجہ سے زخمی ہونے والے دعا کے دوست حارث فاتح کے حوالے سے بتایا کہ ’حارث اب خطرے سے باہرہیں، لیکن ان کا علاج جاری ہے۔‘

انہیں نے مزید بتایا کہ ’واردات کے بعد سب سے پہلے میں نے ہی حارث فاتح کا بیان ریکارڈ کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ گاڑی میں چار افراد تھے جنہوں نے اپنے چہرے ڈھکے ہو ئے تھے۔ جس گاڑی میں وہ سوار تھے وہ پرانے ماڈل کی ہنڈا سوِک کار تھی۔ اس لیے حارث فاتح اور سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھی جانے والی گاڑی کی بنیاد پر فی الحال اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ دعا کے اغوا میں پی ای سی ایچ ایس بلاک نمبر دو سے چوری ہونے والی گاڑی ہی استعمال ہوئی ہے۔ ‘

ایس ایچ او تھانہ فیروزآباد اورنگزیب خٹک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 27 نومبر کو پی ای سی ایچ ایس بلاک دو کے مکان نمبر 113 کے سامنے سے کار سوار چار ملزمان نے ہنڈا سِوک کار نمبر اے جے ایل 057 اسلحہ کے زور پر چھینی تھی۔ اس کا مقدمہ فیروز آباد تھانے میں درج کرایا گیا تھا۔ گاڑی کی ریجشٹریشن نوشیروان خالد کے نام سے ہے۔

20 سالہ طالبہ دعا منگی کو 30 نومبر ہفتے کی رات ڈیفنس فیز 6 کے علاقے بخاری کمرشل میں واقع ہوٹل ’چائے مسٹر‘ سے کے باہے سے اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھر جانے کے لیے کریم کا انتطار کر رہی تھیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان