سری لنکا پاکستان ٹیسٹ سیریز: کیا اظہر علی کپتانی بچاسکیں گے؟

کپتان اظہر علی کے لیے یہ سیریز منیر نیازی کے الفاظ میں ایک اور دریا کی مانند ہے جہاں ان پر نہ صرف ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا دباؤ ہے بلکہ وہ خود اپنی بیٹنگ کو لےکر بہت سارے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستانی ٹیسٹ کیپٹن اظہر علی (اے ایف پی فائل)

دس سال کے بعد پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ دوبارہ شروع ہورہی ہے اور پھر وہی ٹیم پاکستان کے مدمقابل ہے جس کو دس سال پہلے دہشت گردی کا شکار ہوکر ادھورا ٹیسٹ میچ چھوڑ کر واپس گھر جانا پڑا تھا۔ سری لنکا جو خود عرصہ دراز تک دہشت گردی کے مسائل سے نبرد آزما رہا ہے اس کو اس بات کاادراک ہے کہ ایسے حالات میں کیسے خود کو سنبھالا جاسکتا ہے۔

راولپنڈی کے کرکٹ گراؤنڈ میں 11 دسمبر سے پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا آغاز ہورہا ہے۔  

پاکستان کے لیے یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے سلسلے کی سیریز ہی پاکستان کی چیمپئین شپ میں کوئی پوزیشن متعین کرسکے گی جس میں فی الحال پاکستان اپنے دونوں میچ آسٹریلیا سے ہارکر انتہائی نچلی پوزیشن پر ہے جبکہ سری لنکا چوتھی پوزیشن پر ہے۔ 

پاکستان کی حالیہ شکستوں سے کھلاڑیوں کا مورال بھی متاثر ہوا ہے اور آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹوں میں کچھ بیٹسمین جس طرح آؤٹ ہوئے اس سے ظاہر تھا کہ کھلاڑی سخت دباؤ میں ہیں۔

کپتان اظہر علی کے لیے یہ سیریز منیر نیازی کے الفاظ میں ایک اور دریا کی مانند ہے جہاں ان پر نہ صرف ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا دباؤ ہے بلکہ  وہ خود اپنی بیٹنگ کو لےکر بہت سارے سوالات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کی انفرادی کارکردگی گذشتہ دو سال سے زوال پذیر ہے اور کئی مواقع پر وہ کچھ ایسے شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے جو ان کی عادت کے برعکس ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے جسم کو بیٹ کے پیچھے رکھ کر سیدھے بیٹ سے کھیلتے ہیں لیکن آسٹریلیا میں وہ زیادہ تر جسم سے دور کھیلتے رہے اور ان کا سر بھی ہوا میں بلند رہا۔ مرحوم حنیف محمد کے مطابق بیٹسمین کا سر اگر ہوا میں معلق ہو تو گیند کی پچ پر پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔

پاکستان کے کوچ اور سیلیکٹر نے سیریز کے لیے جن 16 کھلاڑیوں کا اعلان کیا ہے ان میں افتخار احمد کی جگہ فواد عالم بھی شامل ہیں جو 10 سال کے بعد ٹیسٹ کھیل سکیں گے۔ گذشتہ کئی سیزنوں سے زبردست کارکردگی دکھانے کے باوجود ان پر قسمت مہربان نہ تھی لیکن اب قرعہ فال نکل ہی آیا ان کے لیے شاید یہ آخری موقع ہوگا۔

 عثمان شنواری کو موسیٰ کی جگہ شامل کیا گیا ہے جبکہ باقی تمام کھلاڑی وہی ہیں جو آسٹریلیا کے خلاف شکست کھا کر واپس آئے ہیں۔ کرکٹ نقاد امام الحق اور حارث سہیل کو برقرار رکھنے پر چراغ پا ہیں کیونکہ دونوں کھلاڑی طویل عرصہ سے کوئی اچھی اننگ نہیں کھیل سکے ہیں۔ ان سے بہتر تھا کہ سمیع اسلم اور عمران بٹ کو شامل کیا جاتا جو حالیہ سیزن میں نو سو سے زائد رنز بنا چکے ہیں۔ مڈل آرڈر میں بابر اعظم اور اسد شفیق پر ٹیم بھروسہ کرے گی جنہوں نے آسٹریلیا میں مناسب رنز بناکر اپنے آپ کو تنقید سے باہر رکھا ہے۔

اسد شفیق اور اظہر علی پہلی دفعہ اپنے گھر میں کھیلیں گے۔ ستر سے زائد ٹیسٹ کھلینے کے بعد گھر میں کھیلنا خود ایک ریکارڈ ہے۔

بولنگ میں پاکستان ممکنہ طور پر کاشف بھٹی کو ڈیبیو کرائے گا کیونکہ راولپنڈی میں نہ تو ریورس سوئنگ ہوتی ہے اور نہ باؤنس ملتا ہے ،اس لیے پاکستان دو فاسٹ بالروں شاہین شاہ اور عباس کے ساتھ میدان میں اترے گا جبکہ یاسر شاہ سپن فورس کی قیادت کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سری لنکا نے ایک مضبوط ٹیم تشکیل دی ہے۔ کپتان کونارتنے اچھی فارم میں ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری سے ان کو بہت اعتماد ملا ہے۔

سری لنکا نے آخری ٹیسٹ پاکستان کے خلاف گذشتہ سال متحدہ عرب امارات میں کھیلا تھا جہاں کونارتنے کی 196 رنز کی اننگ نے سری لنکا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ اس ٹیسٹ میں اسد شفیق کی سنچری اور کپتان سرفراز کی ففٹی سے پاکستان جیت کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن آخری لمحات میں بازی ہارگیا تھا۔  

سری لنکا نے تجربہ کار میتھیوز اور چندی مل کو بھی پاکستان یاترا پر ساتھ رکھا ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے قہر بننے والے رنگانا ہیرتھ اب کرکٹ چھوڑ چکے ہیں تاہم دلوران پریرا مشکلات پیداکریں گے اور ان کی آف سپن بولنگ اکثر پاکستان کو پریشان کرتی رہی۔   اس طرح فاسٹ بالنگ میں لکمل اور کمارا  سری لنکن ٹیم کو لیڈ کریں گے ۔ مجموعی طور پر سری لنکا نے ایک مضبوط سکواڈ تشکیل دیا ہے۔

ٹیم کی صورتحال کے باعث ممکن ہے کہ پاکستان ٹیم مینیجمنٹ بیٹنگ ٹریکس بنائے تاکہ شکست کے عنصر سے بچا جا جاسکے ۔مصباح الحق ویسے بھی دفاعی کرکٹ پر یقین رکھتے ہیں ۔

کوچ مصباح الحق اور کپتان اظہر علی نے آسٹریلیا سے واپسی پر پریس کانفرنس میں روایتی انداز میں آسٹریلیا سے شکست کو کھیل کا حصہ قرار دیتے ہوئے اگلی سیریز میں اچھے کھیل کا اعادہ کیا تھا لیکن اظہر علی بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ سیریز ایک مشکل سیریز ہے اور ان کے کیرئیر کی بقا میں اس کا اہم کردار ہوگا۔ اگر ان کو اپنی کپتانی بچانی ہے تو کچھ نیا کرنا ہوگا ورنہ بابر اعظم کپتانی کے لیے مشکیں کس چکے ہیں اور بورڈ کے اعلیٰ ترین حکام بھی ان کے نام پر متفق ہیں۔

پاکستان کے کرکٹ شائقین کے لیے تو یہ سیریز خوشیوں کا پیغام ہے لیکن بورڈ کے حکام نالاں ہیں کیونکہ عرب امارات میں سیریز ان کے لیے پکا ہوا پھل ثابت ہوتی رہی ہے۔ ٹی اے ڈی اے کے نام پر کروڑوں روپے کی آمدنی اور دبئی کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہفتوں قیام سے محرومی ان کی جھنجھلاہٹ کا اظہار کررہی ہے۔ بورڈ نے ابھی تک اس سیریز کی تیاری مکمل نہیں کی ہے اور ایسا لگتاہے کہ آخری منٹ تک انتظامات چلتے رہیں گے۔

سیریز کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن کرکٹ کا پاکستان میں دوبارہ آغاز ایک نئے دور کو جنم دے رہاہے۔ شائقین کو تو خوشیاں دے رہا ہے لیکن کپتان اظہر علی سے ایک سوال کررہا ہے کیا وہ اس سیریز میں جیت سے اپنی کپتانی بچاسکیں گے؟

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ