اویغور مسلمانوں کی ’تربیت‘ جاری رکھیں گے: چین

چین نے ایک بار پھر صوبہ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے کیمپوں کے بڑے نیٹ ورک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی ’تربیت‘جاری رکھے گا۔

ان حراستی مراکز کا مقصد اویغور ثقافت اور مسلم مذہب کو ختم کرنا ہے(اے ایف پی)

چین نے پیر کو ایک بار پھر صوبہ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے کیمپوں کے بڑے نیٹ ورک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی ’تربیت‘جاری رکھے گا۔

چین کا یہ بیان خطے میں اویغور آبادی کی نگرانی اور اسے کنٹرول کرنے سے متعلق سرکاری دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد سامنے آیا۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ اویغور اور دوسری مسلمان اقلیتوں کو مخصوص کیمپوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق برین واشنگ کے یہ کیمپ جیلوں کی طرح چلائے جا رہے ہیں اور اس کارروائی کا مقصد اویغور ثقافت اور مسلم مذہب کو ختم کرنا ہے۔

اویغور مسلمانوں کے خلاف سکیورٹی کریک ڈاؤن کو جواز فراہم کرنے کے لیے چینی حکومت نے حالیہ دنوں میں ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی ہے۔

اس سے قبل چینی حکومت کی اویغوروں کے خلاف اقدامات سے متعلق کچھ دستاویزات منظرعام پر آئی تھیں، جس کے بعد امریکی ایوان نمائندگان نے ایک بل کے ذریعے اس متنازع پالیسی پر عمل کرنے والے چینی حکام پرپابندیاں عائد کر دی تھیں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کے سیکریٹری ژوہیرونگ نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے دستاویزات منظر عام پر لانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ ’دونوں علاقے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خاتمے اور دوبارہ تعلیم دینے کے لیے بنائے گئے کیمپوں کو بدنیتی کے ساتھ توڑمروڑ پیش کرتے ہوئے چین کو بدنام کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیونسٹ پارٹی کے مغرب بعید کے چیئرمین شہرت ذاکر نے پریس کانفرنس میں انسانی حقوق گروپوں اور غیرملکی ماہرین کے لاکھوں اویغوروں اور زیادہ تر مسلمان اقلیتوں کو کیمپوں میں رکھنے کے اندازے مسترد کر دیے ہیں۔

تاہم انہوں نے کیمپوں میں رکھے گئے افراد کی تعداد نہیں بتائی، جنہیں حکومت’پیشہ ورانہ تربیتی مراکز‘قرار دیتی ہے۔

شہرت ذاکر نے امریکہ کی جانب سے اویغوروں کے لیے حقوق کے بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے اسے سراسر اجارہ داری قرار دیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں تمام لسانی گروپ امریکی اقدام کی مذمت اور سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔

گذشتہ ماہ نیویارک ٹائمز نے سنکیانگ میں لسانی اقلیتوں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے متعلق 403 دستاویزات حاصل کی تھیں۔

ان دستاویزات میں چینی صدر شی چن پنگ کی شائع نہ ہونے والی تقاریر بھی شامل تھیں، جن میں حکام پر زور دیا گیا تھا کہ وہ انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی میں قطعی طور پر کسی رحم کا مظاہرہ نہ کریں۔

تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے نے بھی ایک دستاویز جاری کی تھی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح چینی حکام کو حکم ملا کہ وہ کیمپوں میں موجود افراد کی نگرانی کریں اور انہیں فرار ہونے سے روکیں۔

ابتدا میں چینی حکومت نے دوبارہ تعلیم دینے کے ان مراکز کے وجود سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم بعد میں اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سنکیانگ میں پیشہ ورانہ تعلیم دینے کے مراکز قائم کیے گئے ہیں تاکہ انہیں چینی زبان اور فنی تعلیم دے کر انتہاپسندی کو روکا جا سکے۔

انسانی حقوق کے گروپوں اور غیرملکی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے کہ سرکاری دستاویزات اور سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ کیمپوں کو جیل کی طرح چلانے کا پورا انتظام ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا