بھارت میں غیر مسلم اقلیتوں کی شہریت: بل کے خلاف مظاہرے

لوک سبھا کی منظوری حاصل کرنے والے بل کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے وہ غیر مسلم افراد جو 2015 سے پہلے بھارت آچکے ہیں ان کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

لوک سبھا میں پاس ہونے والے سیٹیزن امینڈمنٹ بل (سی اے بی) کی خلاف دہلی میں  مظاہرہ (اےایف پی)

بھارتی لوک سبھا نے منگل کو ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو شہریت دینے کے متنازع بل کی منظوری دے دی جس کے بعد ملک میں سینکڑوں افراد سراپا احتجاج  ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر داخلہ امت شاہ نے سٹیزن امینڈمنٹ بل (سی اے بی) بھارت کے ایوان زیریں میں شور شرابے کے دوران پیش کیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی جو بھارت کی تاریخ میں پہلی بار مذہب کی بنیاد پر شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔

یہ بل ابتدائی طور پر پہلی مودی حکومت کے دوران 2016 میں پیش کیا گیا تھا لیکن اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے بعد اسے واپس لے لیا گیا تھا۔ بل کے مطابق بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے وہ غیر مسلم افراد جو 2015 سے پہلے بھارت آچکے ہیں ان کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن اور بھارت کے کئی شہروں میں مظاہرین نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کے مطابق یہ بل بھارت کے مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی اور بھارت کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی ہے۔

وزیر اعظم مودی اور امت شاہ کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے گذشتہ عام انتخابات میں شہریت ترمیمی بل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔

امت شاہ نے بل کو ووٹنگ کے لیے پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہا: ’ ان تین ممالک میں ہندو، بدھ مت، سکھوں، جین مت، پارسیوں اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رات گئے پاس ہونے والے اس بل کی حمایت میں 311 جبکہ مخالفت میں 80 ووٹ پڑے۔

بھارت کے شمال مشرقی صوبے آسام میں بھی سینکڑوں افراد نے اس بل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کی جانب سے سڑکیں بند کر کے ٹائر جلائے گئے جبکہ دیواروں پر بھی مجوزہ بل کے خلاف نعرے درج تھے۔ صوبے کے چار اضلاع میں طلبہ کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔

آل آسام سٹوڈنٹ یونین ایڈوائزر سموجل بھٹاچاریہ نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں اور خون کے آخری قطرے تک اس کے خلاف رہیں گے۔‘

مودی کی آبائی ریاست گجرات اور مشرقی شہر کولکتہ میں بھی سینکڑوں افراد نے مجوزہ بل کے خلاف مظاہرے کیے۔

سوموار کو جاری ایک بیان میں ایک ہزار سائنسدانوں اور دانشوروں نے بھی اس بل کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’ ہمیں ڈر ہے کہ یہ بل مسلمانوں الگ کر کے ملک کے متنوع سماج کو نقصان پہنچائے گا۔‘

ایوان زیریں سے منظوری کے بعد مجوزہ بل کو ایوان بالا کی منظوری درکار ہو گی۔ ایوان زیریں میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ ایوان بالا  یا راجیہ سبھا میں بی جے پی کےپاس مطلوبہ ووٹ موجود نہیں۔ کسی بھی بل کو قانون میں تبدیل ہونے کے لیے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’ مہربانی کر کے اس ملک کو اس بل اور وزیر داخلہ کو بچائیں۔‘

بل کی حمایت میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ یہ بل بھارت کے صدیوں پرانے انسانی اقدار اور ایکتا کے اصولوں پر مبنی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بل کی منظوری پر بہت خوش ہیں۔

 

 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، مسلمان جماعتوں اور سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ یہ بل مودی حکومت کی جانب سے 20 کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کا حصہ ہے لیکن مودی حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔

بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے: ’ یہ بل تعصب پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو حقوق دینا ہے کسی کے حقوق چھیننا نہیں۔‘

 ایوان میں ہونے والی بحث کے دوران کانگریس پارٹی کے رکن ششی تھرور کا کہنا تھا: ’ یہ بل غیر ملکیوں سمیت تمام افراد کے ’ قانون کے سامنے برابر ہونے کے تاثر کی نفی کرتا ہے۔‘

مودی کی حکومت کے دوران بھارت کے کئی شہروں کے مسلمان نما ناموں کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ سکول کے نصاب میں بھی بھارت کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کو کم تر بتایا جاتا ہے۔ اگست میں بھارتی حکومت نے واحد مسلمان اکثریتی صوبے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اس علاقے کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

بھارتی لوک سبھا میں بل کی منضوری کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی  اس کی مزمت کرتے ہوئے ایک  ٹویٹ میں کہا: کہ یہ ’بین الاقوامی انسانی حقوق اور دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا