چینی ریستوران میں بھی فیملی ہال

ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب خواتین اپنی فیملی کے ساتھ فیملی ہال کے باہر بھی بے فکری سے بیٹھ سکیں گی۔

چین کے فیملی ہالوں میں رش زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔(تصویر:اےایف پی)

لاہور کھابوں کا شہر ہے۔ ہر دوسری سڑک پر کچھ ریڑھی والے نان چنے، دال چاول یا بریانی بیچتے نظر آ ہی جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ان ریڑھیوں پر شوارما، واقعی بڑا شوارما اور زنگر برگر وغیرہ کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

یہ تو تھوڑا فاسٹ فوڈ ہے، چلتے پھرتے خریدا اور کھا لیا۔ باقاعدہ کہیں کھانا کھانے جانا ہو تو فینسی جگہیں نکال کر ہمارے پاس جو دو چار دیسی جگہیں بچتی ہیں ان میں لکشمی چوک کا نام نمایاں ہے۔ کڑاہی کھانی ہو اور اچھی کھانی ہو تو بس یہاں پہنچ جائیں۔

لاہور میں آپ کو درجنوں ریستوران ملیں گے۔ کھانا سستا بھی ہے اور اگر اپنی نظروں کے سامنے بنوایا جائے تو معیاری بھی۔ تقریباً ہر ریستوران میں خواتین کے بیٹھنے کے لیے ایک الگ سے ہال بھی موجود ہوتا ہے جسے فیملی ہال کہا جاتا ہے۔ اس ہال میں خواتین یا کوئی بھی ایسا گروہ جس میں کم از کم ایک خاتون شامل ہوں، بیٹھ سکتے ہیں۔ مردوں کے بیٹھنے کی جگہ ریستوران کے نچلے حصے میں ہوتی ہے جبکہ فیملی ہال ریستوران کی پہلی منزل یا ایک منزلہ ریستوران کی صورت میں اس کے اندر والے حصے میں ہوتا ہے۔

ظاہری طور پر فیملی ہال کا مقصد خواتین کو عزت دینا ہے۔ اس معاشرے کے عورت کو عزت دینے کے معیار بھی دلچسپ ہیں۔ عورت کے ساتھ کوئی مرد ہو تو وہ عزت دار، نہ ہو تو نہیں، برقع میں ہو تو کسی کی عزت، جینز میں ہو تو دعوت، فیملی ہال میں تو قابلِ احترام، ریڑھی پر ہو تو مال۔

فیملی ہال کی یہ ریت بیجنگ کے ایک پاکستانی ریستوران میں بھی زندہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ عورت کے جسم میں نہیں بلکہ اس سوچ میں ہے جو سرحد پار کرنے کے بعد بھی نہیں بدلی۔ 

پاکستان کے فیملی ہالوں میں رش زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ اس صورت میں اگر خواتین مردوں کے ہال میں بیٹھنا چاہیں تو بیرے انہیں ایسے گھور کر دیکھتے ہیں جیسے وہ خود وہاں بیٹھے مردوں سے انہیں چھیڑنے کی درخواست کر رہی ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جو گلی گلی ریڑھیاں موجود ہوتی ہیں، مرد ان کے گرد کھڑے کھڑے بھی کویک لنچ کر لیتے ہیں۔ خواتین کے لیے یہ تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری جیسی کوئی خاتون کسی ریڑھی تک چلی بھی جائے تو وہاں موجود دیگر مردوں کے لیے کھانا کھانا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب تک خاتون وہاں موجود رہتی ہیں، ان کی نظریں خاتون پر ہی جمی رہتی ہیں۔ منظر ہی اتنا ناقابلِ یقین ہوتا ہے۔ ایک عورت ریڑھی والے سے کھانا خرید رہی ہے، دنیا کے کسی کونے میں ایسا ہوتا ہے بھلا؟

ایک بار ہم اپنی دوست سے ملنے کے ایف سی چلے گئے۔ کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ ہمارے سامنے میز پر بیٹھا ایک لڑکا بار بار مڑ کر ہماری طرف ہی دیکھ رہا ہے۔ دو چار دفعہ تو ہم نے نظر انداز کیا۔ پانچویں دفعہ اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے ہم نے اسے اپنے ساتھ آ کر بیٹھنے کی دعوت دے دی۔ اس کے بعد اس کی گردن نہیں مڑی۔

شاید اسے تب احساس ہوا کہ عورت فیملی ہال میں بیٹھے یا فیملی ہال سے باہر وہ وہاں بیٹھی صرف کھانا کھا رہی ہوتی ہے، ایک عام سا عمل جو ہر انسان دن میں کم از کم دو دفعہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے کرتا ہے۔

غالباً اسے یہ احساس بھی ہوا کہ کسی ریستوران میں بیٹھی خاتون کو گھورتے رہنے سے وہ آپ کی گود میں آ کر نہیں بیٹھ جائیں گی بلکہ الٹا پولیس کو فون ملائیں گی اور آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچائیں گی۔ تبھی اس نے گردن نہ موڑنے میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔

اب تو سعودی عرب نے بھی ریستورانوں میں مردوں اور خاندانوں کے لیے الگ الگ حصوں کی شرط ختم کر دی ہے۔ اب وہاں لوگ ایک ہی ہال میں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ گھر سے باہر عورت کا موجود ہونا بالکل ویسے ہی نارمل ہے جیسے مرد کا گھر سے باہر ہونا۔ ہماری طرف چیزیں ابھی اتنی نارمل نہیں ہوئیں۔ یہاں عورت سڑک پر چل رہی ہو، کسی ریستوران میں کھانا کھا رہی ہو یا کسی وٹس ایپ گروپ میں اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہو، ہمیں اس کے ہر انداز میں فحاشی نظر آتی ہے۔

یہ عورت کے انداز میں چھپی فحاشی نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود ہوس ہے جسے ہم مختلف توجیہات دے کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی عورت کے لباس کے پیچھے تو کبھی ’ہم تو مرد ہیں‘ کے پیچھے۔

نیا سال شروع ہونے والا ہے۔ اس نئے سال سے عورت کی نہیں اپنی عزت کریں۔ سڑک پر موجود عورت کو دیکھ کر اپنی آنکھیں باہر نہ نکالیں بلکہ فوراً نظریں جھکائے آگے بڑھ جائیں۔ کسی ریستوران میں عورت کو کھانا کھاتے دیکھیں تو ’یہ ایک نارمل منظر ہے‘ کا ورد شروع کر دیں۔ شروع میں کچھ مشکل ہو گی پھر معاملات آسان ہو جائیں گے۔ طبعیت میں بہتری محسوس ہو تو یہی نسخہ اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ایک وقت وہ بھی آئے گا جب آپ اپنی فیملی کے ساتھ فیملی ہال کے باہر بے فکری سے بیٹھ سکیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ ایک دوسرے کی مدد کر کے ہی ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ