دہائی کی دس طاقتور پاکستانی خواتین

پچھلے دس سالوں میں پاکستان کی کن خواتین نے اپنا لوہا منوایا ہے، عشرے کے اختتام پر انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز۔

ملالہ، شرمین عبید، عاصمہ جہانگیر اور قندیل بلوچ (اے ایف پی/فیس بک)

(انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ یہ اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔)


پاکستان میں خواتین کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ تاریخ اٹھا لیں، آپ کو بہت سی ایسی خواتین کا ذکر مل جائے گا جنہوں نے تحریکِ آزادی کی بھرپور حمایت سے لے کر مارشل لا تک کی شدید مخالفت کی۔ اس کے لیے انہوں نے ڈنڈے بھی کھائے، جیلیں بھی کاٹیں۔

2019 کے اختتام تک معاملہ کہیں آگے پہنچ چکا ہے۔ ہماری خواتین اب نہ کسی سے شرماتی ہیں اور نہ ہی ڈرتی ہیں بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اس معاشرے سے اپنے حقوق مانگتی ہیں، وہ بھی برابر کے حقوق۔ گذشتہ دس برسوں میں پاکستان سے کئی ایسی خواتین کے نام سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنے عزم و ہمت سے دنیا کو حیران کر دیا۔ ان میں سے دس کا یہاں مختصر تعارف بیان کیا جا رہا ہے۔

10۔ ہم عورتیں

پاکستان میں خواتین کا عالمی دن کئی سالوں سے منایا جا رہا ہے لیکن پچھلے دو برس سے اس دن کو منانے کا انداز بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور اس کا سہرا ’ہم عورتیں‘ کو جاتا ہے۔ یہ ’ہم عورتیں‘ کون ہیں، اسے جاننے کے لیے دو سال پیچھے چلتے ہیں۔

دو سال قبل یعنی2017 میں کراچی میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں خواتین کے عالمی دن کی تیاری کے حوالے سے اکٹھی ہوئیں۔ اس نشست میں انہوں نے کچھ اہم فیصلے لیے جنہوں نے پاکستان میں اس دن کا معنی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس میٹنگ میں کہا گیا کہ اس سال کے مارچ کو عورت مارچ کا نام دیا جائے گا۔ عورت مارچ کو پاکستان میں بسنے والی ہر عورت کی آواز بنانے کے لیے ان تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مارچ کے لیے اپنے نام کا استعمال نہیں کریں گی بلکہ یہ مارچ 'ہم عورتیں' کے نام سے منعقد کیا جائے گی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 'ہم عورتیں' نہ تو کوئی تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ ہے بلکہ یہ پاکستان کی عورتوں کی طرف ایک استعارہ ہے۔

اس عورت مارچ میں کوئی بھی شریک ہو سکتا تھا اور وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کسی بھی انداز میں احتجاج کر سکتا تھا۔ اس مارچ میں ہر طبقے کی عورت نے حصہ لیا۔ اس دن کراچی کی سڑکوں پر مختلف رنگ تھے۔ ہنستی گاتی عورتیں نعرے لگاتی آگے بڑھ رہیں تھیں۔ اس مارچ کے کچھ پلے کارڈز بہت مشہور ہوئے اور ان پر بہت بحث کی گئی مثلاً اپنا کھانا خود گرم کرو۔

عورت مارچ کی کامیابی دیکھتے ہوئے اس سال یہ مارچ مزید شہروں میں منعقد کروایا گیا۔ اس بار اس کا شور پہلے سے زیادہ تھا۔ اس بار پلے کارڈز بولڈ بھی تھے اور واضح بھی۔ عورت مارچ کے بعد مارچ کے منتظمین کو ریپ اور قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ قانون ساز اسمبلیوں میں بھی عورت مارچ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ کچھ سیاستدانوں بشمول  بلاول بھٹو نے عورت مارچ کی حمایت بھی کی۔

کچھ عناصر نے اس مارچ کے مقابلے میں مرد مارچ نکالنے کا بھی اعلان کیا لیکن جب نومبر میں مردوں کا عالمی دن آیا تو کسی طرف سے کوئی شور نہیں اٹھا۔

دسمبر شروع ہوتے ہی اگلے سال ہونے والے عورت مارچ کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خواتین اور مردوں کو اس مارچ کی تیاری میں حصہ لینے کا کہا جا رہا ہے۔ اس عورت مارچ میں کیا ہوگا یہ تو مارچ 2020 میں ہی پتہ چلے گا۔

9۔ نگہت داد

اس تیز رفتار انٹرنیٹ کے دور میں ایک عورت مشعل پکڑے عورتوں اور بچیوں کو محفوظ طریقے سے انٹرنیٹ کا استعمال سکھا رہی ہے، یہ نگہت داد ہیں۔ نگہت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کو انٹرنیٹ پر آزادی میسر نہیں ہے اور انہیں انٹرنیٹ پر ان کی جنس کی بنیاد پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

38 سالہ نگہت داد پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ نگہت پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی، ڈیجیٹل سکیورٹی، سائبر ہراسمنٹ اور فیمینزم کے حوالے سے سرگرم ہیں۔

نگہت کی تنظیم نے دسمبر 2016 میں پاکستان کی پہلی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کا آغاز کیا جس کا مقصد آن لائن ہراساں ہونے والے افراد کو ’مفت، محفوظ اور رازدارانہ‘ سروس فراہم کرنا ہے۔ اس ہیلپ لائن کے ذریعے متاثرین کو قانونی مدد، ڈیجیٹل سیکیورٹی سپورٹ اور نفسیاتی مشاورت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

اگر کسی ٹاک شو میں ڈیجیٹل رائٹس پر بات کرنی ہو تو نگہت داد کو ہی دعوت دی جاتی ہے۔ رابی پیر زادہ کی نجی نوعیت کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر لیک ہونے کے بعد نگہت داد ہی ان کی مدد کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔

2018 میں عالمی اقتصادی فورم نے نگہت داد کو اپنی سالانہ ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس سے پہلے 2016 میں ہالینڈ کی حکومت کی جانب سے انہیں انسانی حقوق کا ٹیولپ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اسی سال اٹلانٹک کونسل ڈجیٹل فریڈم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ٹائمز میگزین نے 2017 میں انہیں’نیکسٹ جنریشن لیڈرز‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔

8۔ میشا شفیع

دو سال قبل ہالی وڈ کے سابق پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین پر کئی خواتین اور اداکاراؤں نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ یہاں سے ’می ٹو مہم‘ کا جنم ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ دنیا بھر سے خواتین نے ہیش ٹیگ می ٹو کا استعمال کرتے ہوئے جنسی ہراسانی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سوشل میڈیا پر بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ پاکستان میں می ٹو مہم کا آغاز اپریل 2018 میں اداکارہ و گلوکارہ میشا شفیع کی ایک ٹویٹ سے ہوا جس میں انہوں نے اپنے ساتھی اداکار و گلوکار علی ظفر پر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔

علی ظفر نے اس الزام کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے میشا شفیع کے خلاف مبینہ طور پر ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ جواب میں میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف دو ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس معاملے کو تقریباً ڈیڑھ سال گزر چکا ہے لیکن اس قانونی جنگ کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

می ٹو مہم پر نظر رکھنے والے لوگ اس کیس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کیس کا ہر نیا موڑ پاکستان میں جنسی ہراسانی کے کلچر کو سمجھنے میں بہت مدد دے رہا ہے۔

اس ڈیڑھ سال میں میشا شفیع کو طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے ان کے لباس اور انداز کو جنسی ہراسانی کی وجہ قرار دیا۔ علی ظفر بھی اپنے ایک متنازع انٹرویو میں ایسی ہی باتیں کر چکے ہیں جس سے پاکستانی معاشرے میں موجود وکٹم بلیمنگ کے کلچر کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔

میشا شفیع نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ اس ایک سال کے دوران انہیں کئی دھمکیاں بھی ملیں۔ میشا شفیع کی وکیل نگہت داد کے مطابق میڈیا بھی اس کیس کی غلط رپورٹنگ کر رہا ہے۔

میشا شفیع کے کیس نے پاکستان میں خواتین کو جنسی ہراسانی سے بچانے والے قوانین کی افادیت پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں۔ میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست وفاقی محتسب کے دفتر میں جمع کروائی تھی جو وہاں سے تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دی گئی تھی کیونکہ اس کیس کی شنوائی محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ میشا نے اس محتسب کے فیصلے کے خلاف گورنر پنجاب کو اپیل جمع کروائی جو گورنر پنجاب نے خارج کر دی۔ میشا نے گورنر پنجاب کے اس فیصلے کو پھر لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت نے بھی اس اپیل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ دونوں فریقین کے درمیان مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں تھا۔

ستمبر 2019  میں میشا کی ایک اہم گواہ لینا غنی نے دعویٰ کیا کہ اس کیس میں گواہ بننے پر ایف آئی اے انہیں ہراساں کر رہی ہے۔

7۔ کرشنا کماری کوہلی

شاید ہی کبھی کسی نے سوچا ہو کہ تھر سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی عورت بھی سینیٹر بن سکتی ہے۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ کرشنا کماری نے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا ہے۔ کرشنا کماری کا تعلق  میں ننگرپارکر کے ایک پسماندہ سے گاؤں دھانا گام سے ہے۔ وہ مارچ 2018 میں سینیٹر منتخب ہو کر سینیٹ میں منتخب ہونے والی پہلی ہندو دلت خاتون بن گئی ہیں۔

کرشنا کماری کی شادی 16 سال کی عمر میں کر دی گئی تھی۔ شادی کے بعد انہوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

کرشنا کماری نے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مظلوم افراد کے لیے بہت کام کیا ہے۔ جب وہ تیسری جماعت میں تھیں تو ایک زمیندار نے انہیں اور ان کے خاندان کو تین سال تک جبری مشقت کے لیے قید کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس جیل سے انہیں رہائی پولیس کے چھاپے کے بعد ملی۔

اسی وجہ سے ان کا زیادہ تر کام جبری مشقت پر مامور مزدوروں کے حقوق کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ کرشنا کماری نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی بہت کام کیا۔ انہوں نے ملازمت کی جگہ پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات سے نمٹنے کے حوالے سے کئی ورکشاپس اور سیمینار منعقد کروائے۔ انہوں نے انسانی حقوق پر بہت سے اخبارات کے لیے کالم بھی لکھے۔

گذشتہ برس انہیں بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

6۔ قندیل بلوچ

کچھ لوگوں کو اس مضمون میں قندیل بلوچ کا نام شامل کرنے پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اس دہائی کی کچھ خواتین کا ذکر کرنا ہو تو قندیل خود بخود اس ذکر میں اپنی جگہ بنا لیں گی۔

قندیل بلوچ کو پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سیلیبریٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قندیل نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر خود کو اس جگہ پہنچایا جہاں اس سے پہلے انہیں کوئی پہنچنے نہیں دے رہا تھا۔ وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ بھی رہی تھی۔ ہر روز وہ ایک نیا گُر آزماتی اور پہلے سے زیادہ مشہور ہو جاتی۔ ان پوسٹس کے جواب میں اسے بہت سی نفرت ملی لیکن وہ پھر بھی اپنا کام کرتی رہی۔

قندیل کواس کے بھائی نے جولائی 2016 میں نیند کی حالت میں قتل کر دیا تھا۔ یہ غیرت کے نام پر کیا جانے والا قتل تھا۔ قندیل کے قتل کی خبر پوری دنیا میں پھیلی اور بہت لمبے عرصے تک دنیا بھر سے صحافی قندیل کے بارے میں جاننے کے لیے پاکستان آتے رہے۔ اس سال ستمبر میں قندیل کے بھائی وسیم کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔

ایک انتہائی عام سے گھر سے تعلق رکھنے والی قندیل نے کیسے اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کی اس بارے بس اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ قندیل کو اتنی مہلت بھی نہیں دی گئی کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بتا سکتی۔ قندیل نےبراہِ راست خواتین کے حقوق کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا لیکن ان کی زندگی اور موت نے پاکستانی معاشرے کا اس کا وہ چہرہ دکھایا جس سے وہ نظریں چرا رہا تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی صنم مہر نے قندیل بلوچ کی زندگی اور موت پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ قندیل سے کسی بھی حیثیت میں منسلک فرد سے ہونے والی اپنی بات چیت کے ذریعے قندیل کی زندگی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

قندیل کی زندگی پر ایک ڈرامہ باغی بھی بنایا گیا لیکن یہ کتاب کئی گنا بہتر انداز میں قندیل کی شخصیت کا احاطہ کرتی ہے۔

5۔ جلیلہ حیدر

صوبہ بلوچستان کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر بھی اس دہائی میں ایک طاقتور عورت بن کر اٹھیں۔ انہوں نے اپنی برادری اور عورتوں کے حقوق کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائی۔ ان کی آواز اتنی بلند ہوئی کہ اس سال بی بی سی نے انہیں اپنی دنیا بھر کی 100 با اثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

جلیلہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے مختلف معاشرتی مسائل پر وی لاگ بھی بناتی ہیں۔

اپنے والد کی وفات کے بعد جلیلہ نے محسوس کیا کہ اس معاشرے کا نظام برابری کی بنیاد پر نہیں چل رہا۔ جلیلہ کی والدہ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا سکول کھول رکھا تھا۔ اس سکول میں آنے والے بچوں کو دیکھ کر جلیلہ نے اس معاشرتی تقسیم کو شدت سے محسوس کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد جلیلہ نے کچھ تحریکوں میں بھی شرکت کی جس سے انہیں مزاحمت اور احتجاج کی طاقت سمجھ آئی۔ ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے مخصوص سلوک کے خلاف بھی انہوں نے ہر فورم پر احتجاج کیا۔

گذشتہ برس 2018 میں جلیلہ حیدر نے ہزارہ برادری پر ہونے والے ایک حملے بعد تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔  انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بھوک ہڑتال چیف آف آرمی سٹاف ضنرل قمر جاوید باجوہ کے آنے تک ختم نہیں کریں گی۔

جلیلہ کو اس ایکٹوزم کے نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر بولنے کی وجہ سے انہیں برطانیہ کی ایک سکالرشپ سے محروم ہونا پڑا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں شرکت کرنے پر بھی انہیں ہراساں کیا گیا۔

4۔ ثنا میر

پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا نام خوب روشن کیا ہے۔ وہ پہلی ایسی پاکستانی خاتون کرکٹر ہیں جنہیں آئی سی سی وومن ورلڈ ٹیم آف دی ایئر میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں آئی سی سی ون ڈے ویمن رینکنگ میں بہترین خاتون بولر ہونے کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

ثنا میر نے کرکٹ کا آغاز سنہ 2005 میں 19 برس کی عمر میں کیا تھا اور محض چار سال بعد وہ کرکٹ ٹیم کی کپتان بن گئیں۔ انہوں نے جس وقت کرکٹ کھیلنا شروع کی اس وقت کرکٹ میں لڑکیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

33 سالہ ثنا میر نے اپنے کریئر کے دوران 118 ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کھیلے۔ انہوں نے اب تک اپنے ون ڈے انٹرنیشنل کریئر میں 18 کی اوسط سے 1615 رنز بنائے ہیں اور ان کا بہترین سکور 52 رنز ہے جبکہ وہ 137 وکٹیں حاصل کر چکی ہیں۔

کپتان کے طور پر ثنا میر ویمن کرکٹ میں عالمی سطح پر سب سے زیادە میچ کهیلنے والی پانچویں کهلاڑی ہیں۔ ان کی کپتانی میں پاکستان کی خواتین کی کرکٹ ٹیم نے کل 69 میچ کھیلے۔

ان کی کپتانی میں ہی پاکستان نے دو مرتبہ ایشیائی کھیلوں کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔ ثنا میر نے نومبر میں انٹرنیشنل کرکٹ سے بریک لینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بریک کے دوران اپنے اگلے اہداف کو ترتیب دیں گی۔

3۔ عاصمہ جہانگیر

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں میں سب سے روشن نام عاصمہ جہانگیر کا ہے۔ 11 فروری 2018 کو عاصمہ جہانگیر کی وفات نے سول سوسائٹی کو ایک بہت بڑا دھچکہ پہنچایا۔ ان کی وفات نے جو خلا پیدا کیا وہ شاید ہی کبھی پُر کیا جا سکے۔ ان کی وفات کے بعد کئی ایسے مواقع آئے جب پاکستان میں ان کی آواز کی کمی محسوس کی گئی۔

عاصمہ جہانگیر نے1987 میں انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی۔ وہ پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون وکیل بھی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے 2018 کا انسانی حقوق کا ایوارڈ عاصمہ جہانگیر کے نام کیا تھا۔ وہ یہ ایوارڈ کرنے والی چوتھی پاکستانی خاتون ہیں۔ ان سے پہلے یہ ایوارڈ رعنا لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی حاصل کر چکی ہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے دسمبر 1972 میں اپنے والد ملک غلام جیلانی کو  حراست میں لیے جانے لے خلاف مزاحمت کی۔ انہوں نے اپنے والد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔

ملالہ اور شرمین کی طرح عاصمہ جہانگیر کو بھی الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی میں کئی بار عاصمہ کو ملک سے غداری اور توہین مذہب کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ ان کے گھر پر بھی کئی دفعہ حملے کیے گئے۔ اس کے باوجود وہ نڈر لہجے میں اپنی رائے کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ فوج مخالف بیانات کی وجہ سے انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔

ان کی خدمات کے اعزاز میں انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا جن میں یونیسکو پرائز، فرنچ لیجن آف آنر اور مارٹن اینیلز ایوارڈ شامل ہیں۔

ستمبر 2016 میں اقوام متحدہ نے عاصمہ جہانگیر کو ایران میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے لیے اپنا نمائندہ خصوصی منتخب کیا تھا۔

2۔ شرمین عبید چنوئے

اس فہرست میں دوسرا نام شرمین عبید چنوئے کا ہے جو پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز ہیں۔ یہ اپنے کام کے ذریعے نہ صرف خواتین اور بچوں کے مسائل کو اجاگر کر رہی ہیں بلکہ ان مسائل کے سدِ باب کے لیے بنائے گئے قوانین کے بارے میں آگاہی بھی پھیلا رہی ہیں۔

شرمین عبید نے 2002 میں امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں بطور فلم ساز اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ شرمین نے ہدایت کار ڈینیئل جنگ کے ساتھ مل کر امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کے لیے ’سیونگ فیس‘ نامی ایک دستاویزی فلم بنائی جس نے 2012 میں آسکر ایوارڈ جیتا۔

’سیونگ فیس‘ ایک ایسے پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر کی کہانی ہے جو پاکستان میں تیزاب کے حملوں کا شکار خواتین کا علاج کر رہے ہیں۔

ملالہ کی طرح پاکستان میں شرمین پر نکتہ چینی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایک مخصوص حلقے کی جانب سے ان پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کا الزام بھی لگا لیکن شرمین نے اس کی بالکل بھی پروا نہیں کی۔

شرمین کو 2016 میں ان کی دوسری دستاویزی فلم ’اے گرل ان دا ریور: دی پرائس آف فارگونس‘ کے لیے دوسرا آسکر ایوارڈ ملا۔ یہ فلم ایک ایسی لڑکی کے بارے میں تھی جسے اس کے رشتے داروں نے غیرت کے نام پر قتل کر کے دریا میں پھینک دیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کی سانسیں باقی تھیں، وہ زندہ بچ گئی۔ شرمین نے اس کی کہانی کو ایک دستاویزی فلم کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس فلم کے بعد پارلیمان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مناسب قانون سازی کا عمل بھی تیز کیا گیا۔

حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2012 میں انہیں پاکستان کے دوسرے بڑے سویلین اعزاز ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا۔

پاکستان کی پہلی اینیمیٹد فلم ’تین بہادر‘ بنانے کا سہرا بھی شرمین عبید چنوئے کے سر ہے اس کے علاوہ وہ خواتین اور بچوں کے مسائل کے حوالے سے متعدد شارٹ فلمز اور ویب سیریز بنا چکی ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور سیریز ’آگاہی‘ اور ’خاموشی توڑ دو‘ ہیں۔

1۔ ملالہ یوسفزئی

اس فہرست میں سب سے پہلا نام ملالہ یوسفزئی کا ہی ہو سکتا ہے۔ ملالہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سوات کی لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے آواز بلند کرنے والی ملالہ آج دنیا بھر کی لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے کام کر رہی ہے۔

 ملالہ یوسفزئی کا تعلق سوات کے علاقے مینگورہ سے ہے۔ اس نے 11 سال کی عمر میں وادی سوات میں طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کے بند کیے جانے کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ اپنے والد کے ساتھ ہر اس پلیٹ فارم پر گئیں جاں تک اس کی رسائی تھی۔ پھر اس نے بی بی سی اردو کے لیے گل مکئی کے نام سے ایک ڈائری لکھی جس نے دنیا کی توجہ سوات میں طالبان کی نام نہاد حکومت کی طرف دلائی۔

2012 میں طالبان نے ملالہ کو سکول سے واپسی پر شناخت کے بعد سر میں گولی ماری تھی۔ اس حملے میں ملالہ کی دو اور ساتھی طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی تھیں۔

ملالہ کو راولپنڈی کے ایک فوجی ہسپتال میں ابتدائی علاج  فراہم کیا گیا تھا اور اس کے بعد مزید علاج کے لیے لندن منتقل کر دیا گیا تھا۔ صحت یابی کے بعد ملالہ نے وہیں رہائش اختیار کی اور اب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے۔

گذشتہ برس ملالہ اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد پہلی بار وطن واپس آئی تو اس کے دورے کو جتنا خفیہ رکھا جا سکتا تھا، رکھا گیا۔ سخت سکیورٹی کے حصار میں اسے سوات میں اس کے گھر بھی لے جایا گیا۔ اس دورے کے دوران ملالہ نے کئی اہم ملاقاتیں بھی کیں۔

ملالہ کی اب تک دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ملالہ کی پہلی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ اسی کے بارے میں ہے۔ ملالہ کی دوسری کتاب ’وی آر ڈس پلیسڈ‘ میں ایسی پناہ گزین لڑکیوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے اپنے تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کئی مصیبتوں کا سامنا کیا۔

ملالہ یوسفزئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر2014 میں نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ وہ دنیا بھر میں نوبل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت ہے۔

جہاں دنیا بھر ملالہ کو ان کے کام اور شخصیت کی وجہ سے چاہتی ہے، وہیں بدقسمتی سے پاکستان میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے ملالہ کا ذکر آتے ہی جس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔ ملالہ پر الزام مضحکہ خیزی کی ہر حد سے ماورا ہے ۔ ۔ ۔ کہ انہوں نے طالبان کو بدنام کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10