سب مل کر مسٹر جناح کو دعائیں دو

میری بھارتی دوست روہنی موہن کہتی ہیں کہ بھارتی ریاست آسام میں ان گنت برسوں سے پیڑھی در پیڑھی رہنے والے مسلمانوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ میاں ذرا اپنے دادا کی بھارتی شہریت تو ثابت کرو۔

صرف بھارت کا زیر انتظام کشمیر ہی نہیں، پورے بھارت میں موجود مسلمان آبادی مقبوضہ لگنے لگی ہے(اے ایف پی)

بھارت میں ان تمام ہی جگہوں کا نام بدلنے کی مہم تیزی سے جاری ہے جس میں اسلامی الفاظ آتے ہوں یا پھر اس نام کو کسی مسلمان مغل حکمراں نے رکھا ہو۔ پھر کچھ خبریں آئیں کہ تاج محل دراصل شیو جی کا مندر تھا، اس کے سرداب خانے میں اتر کر دیکھا جائے گا، جبکہ حکمراں جماعت کے سیاستدانوں نے تاج محل کا نام رام محل رکھنے کی سفارش تک دی۔

ہم پاکستانی ایسی خبریں پڑھتے ہیں اور پڑھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بھلا یہ کون سا بچپنا ہے، بڑی گری ہوئی بات ہے، اس پر کیا بحث تکرار کرنا، مگر بات الہ آباد یا تاج محل کا نام بدلنے سے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تقدیر مٹی میں ملانے تک آ پہنچی ہے۔

یہ پچھلے سال گرمیوں کے موسم کی بات ہے۔ چوبیس سالہ بھارتی مسلمان تبریز انصاری کو جھاڑ کھنڈ میں ہندو انتہا پسندوں کا ایک ٹولہ کھمبے سے باندھ کر مار رہا تھا۔ اس کے سر اور منہ سے جو خون بہہ رہا تھا اس کو موبائل کیمرہ ذوم کر کے ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ چاروں اطراف ہندو مردوں کا ایک ہجوم تھا۔ مار مار کر تبریز انصاری سے کہا جاتا تھا کہ ’بول جے شری رام‘ وہ ادھ موا ہو چکا تھا۔ جان کی امان  پانے کی خاطر جیسے تیسے بولتا ’جے شری رام۔‘

مارنے والوں کو پھر بھی کسی کل سکون نہیں مل رہا تھا جو پھر مار کر کہا جاتا ’بول جے ہنومان‘، تبریز انصاری ’جے ہنومان‘ کہہ کر سر جھکا لیتا۔ بعد میں مارنے والے انتہا پسندوں کی بربریت کو پالش کرنے کے لیے کہہ دیا گیا کہ تبریز انصاری پر چوری کا الزام  تھا۔ لیکن کسی میں یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ چور سے ’جے شری رام‘ کہلوانے کی ضد کیوں تھی۔

یہ صرف تبریز انصاری کی کہانی نہیں۔ بھارت میں اس وقت مسلمانوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر، سر عام تشدد سے مارنے کے سینکڑوں واقعات ہو چکے ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جنہیں ’گجرات کا قصاب‘ بھی کہتے ہیں وہ مسلمانوں کے خلاف اس نئی لہر کے روح رواں ہیں۔

مودی پرلے درجے کے کند ذہن واقع ہوئے۔ ان میں سٹیٹس مین شپ جیسی کوئی صلاحیت نہیں ہاں مگر وہ انتہائی شاطر ہیں۔ اسی لیے انہوں نے کامیابی کے اس گر پہ ہاتھ صاف کیا جس میں آج تک کوئی ناکام نہیں ہوا اور وہ ہے ’مذہب‘۔ ’ہندو کارڈ‘ پر سیاست کھیلنے والا مودی تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک بھارت کا انتخاب ہے۔ اگر بھارتی عوام کی اکثریت کو سخت گیر، مذہبی جنونیت کا یہ چہرہ پسند ہے تو اس میں آپ ہم اور دنیا بھر کے انسانی حقوق والے کچھ کر نہیں سکتے۔

میری بھارتی دوست روہنی موہن گذشتہ کئی ماہ سے ’نیشنل رجسٹر آف سٹیزن‘ سے متاثر ہونے والوں پر رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بھارتی ریاست آسام میں ان گنت برسوں سے پیڑھی در پیڑھی رہنے والے مسلمانوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ میاں ذرا اپنے دادا کی بھارتی شہریت تو ثابت کرو۔ خود کو بھارتی ثابت کرنے کا یہ عمل اتنا عجیب ہے کہ اچانک مشکوک قرار دیے جانے والوں کو دو آپشنز ملتے ہیں یا بھارت چھوڑ دو یا پھر مشکوک غیرملکیوں کے لیے بنائے گئے سپیشل ٹرائبیونل کے سامنے پیش ہو کر اپنا بھارتی ہونا ثابت کرو۔

اب جو بھارتی شہریت کے قوانین میں ترمیم کا بل سامنے آیا ہے وہ ہندو انتہا پسندی کے اس ماڈل کو اور بھی واضح کر دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت بھارت کے ہمسائے مسلمان ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں رہنے والے غیرمسلموں کو بھارت اپنی شہریت دے سکے گا۔ ذرا غور کریں تو سمجھ آ جائے گا کہ یہ پروگرام دراصل اسرائیل کا ماڈل سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ مودی اپنے تئیں یہ ٹھانے بیٹھے ہیں کہ بھارت ایک ہندو دیش کے نئے تشخص کے ساتھ ابھرے گا۔ بظاہر یہ پلان کامیاب ہوتا نظر آتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم اپنے ملک میں کئی سال انتہا پسندوں کے جبر و جہالت کو بھگت چکے ہیں، ہم اسلام کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کا شکار رہے، ہم نے دیکھا کہ اسلام کا علم جہاد خود مسلمان بھائیوں کے خلاف بلند کیا گیا، ہم نے دیکھا کہ کیسے عالمی قوتوں نے ہماری کمزوریوں کے ہاتھوں ہمیں کھلونا بنایا اور ہمیں اپنے آپ میں الجھا دیا گیا۔ ہمارے ہتھیاروں کو اپنوں کا خون بہانے پر لگا دیا گیا۔ آج ہم وہ آگ و خون کا دریا پار کر آئے ہیں۔ مگر ایک آگ اب ہمارے ساتھ والے ملک میں لگنے کو ہے وہ ہے ’ہندو انتہا پسندی کی آگ۔‘

صرف بھارت کا زیر انتظام کشمیر ہی نہیں، پورے بھارت میں موجود مسلمان آبادی مقبوضہ لگنے لگی ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد تو بھارتی مسلمانوں نے کچھ پر پھیلائے تھے اور احتجاج کیا تھا۔ اب وہ دبی دبی آوازیں بھی نہیں رہیں۔

پاکستان بھی اقلیتوں کے لیے کوئی اچھا ملک نہیں۔ ہمارے یہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات ہوئے ہیں، مگر بھارت اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ جو نسل کشی کے راستے پر چل نکلا ہے اس میں کوئی فرد واحد یا ٹولہ نہیں بلکہ ریاست، حکومت اور انتہا پسند ہندو تینوں شامل ہیں۔

بھلا ہو مسٹر جناح کا جو 70 سال پہلے ہی اکھنڈ بھارت کے اس منصوبے کو بھانپ گئے تھے۔ بھارت کے مسلم مخالف حالات دیکھ کر دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہند کا پلان بالکل درست لگتا ہے۔ مگر ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جنہوں  نے بھارت کو اپنی دھرتی مانا، جو نسل در نسل بھارت سے وفاداری ثابت کرتے کرتے آج اس نہج پر آگئے ہیں کہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے باوجود بھی ان کا سڑکوں پر قتل ہونا معمول بن گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ