خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی ویڈیو بنانے والے ڈھونڈنا ممکن نہیں: انتظامیہ

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر بیٹھی ہیں جن کے ساتھ چند افراد بھی موجود ہیں اور ان سے طلبہ جارحانہ انداز میں سوالات کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں اٹک کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سے چند طلبہ ان کے احمدیوں کے حوالے سے عقیدے کے بارے میں  جرح کر رہے ہیں۔ (تصویر: سکرین گریب)

سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والی ایک ویڈیو میں اٹک کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سے چند طلبہ احمدیوں کے حوالے سے ان کے عقیدے کے بارے میں تلخ انداز میں جرح کر رہے ہیں۔

یہ ویڈیو گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس پر صارفین حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر بیٹھی ہیں جن کے ساتھ چند افراد بھی موجود ہیں اور ان سے طلبہ جارحانہ انداز میں سوالات کر رہے ہیں۔

ان سے ویڈیو میں نوجوان طلبہ احمدیوں کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے سوالات کرتے ہیں اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔

اسسٹنٹ کمشنر کو یہ سب وضاحت دینے پر اس لیے مجبور کیا گیا کیوں کہ اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق انہوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ  ایک تقریب میں طلبہ کے سامنے کہا تھا کہ ملک میں تعصب اور امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسسٹنٹ کمشنر پر اپنے بیان کی وضاحت کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور انہیں اپنے ذاتی عقیدے کی وضاحت کرنے کا بھی کہا جاتا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ بیٹھے ایک شخص وہاں پر موجود افراد کو بتاتے ہیں کہ ایک طالب علم نے اسسٹنٹ کمشنر کی تقریر پر ایک ’جائز نکتہ‘ اٹھایا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کے بیان سے لگتا ہے کہ شیعوں اور سنیوں کے ساتھ احمدیوں کو جوڑا گیا ہے جس سے یہ تاثر ملا ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔

اسی حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر کو آئین پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ذاتی عقیدے کے حوالے سے وضاحت دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق پر بات کر رہی تھیں جس پر انہوں نے غیر مسلم پاکستانیوں، کشمیر اور خواتین کے حوالے سے بھی بات کی۔

وہ ان طلبہ کو وضاحت دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے بات کی تھی جس میں انہیں احمدیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ان کا مقصد تھا کہ ملک میں یکجہتی ہو۔

جس کے جواب میں طالب علم نے جارحانہ انداز میں 1973 کے آئین کا حوالہ دیا۔ اسسٹنٹ کمشنر سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں جس کی انہوں نے وضاحت دی اور کہا کہ ان کے اپنے بچے کا نام ’محمد‘ ہے۔

پھر ان سے ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران کہا گیا کہ وہ اس بات کی بھی وضاحت کریں کہ ان کا ختم نبوت کے حوالے سے کیا عقیدہ ہے۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لوگوں نے اسسٹنٹ کمشنر پر دباؤ ڈال کر وضاحت لینے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ٹوئٹر صارف شعیب اقبال کر کہنا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر کا واحد جرم تھا کہ پاکستانیوں میں یکجہتی کی بات کی تھی اور پاکستانیوں میں انہوں نے احمدیوں کو بھی شامل کیا تھا۔

ایک اور ٹوئٹر صارف شبنم نے سوال کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر نے اختلافات نمٹانے کی بات کی جس میں کیا برائی ہے۔

امن خان نے لکھا کہ یہ ویڈیو ہولناک ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر اٹک علی عنان قمر سے رابطہ کیا جن کے دفتر میں یہ سب ہوا۔

علی عنان قمر کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سب اس لیے کیا کہ معاملہ طول نہ پکڑے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سب واقعے کی ویڈیو کس نے بنائی تو ان کا کہنا تھا کہ میڈیا یا طالب علموں میں سے کسی نے بنائی ہو گی۔

ویڈیو کے لیک ہونے کی تحقیقات کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے کی تحقیق ممکن نہیں کیوں کہ آج کل ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے۔‘

اسسٹنٹ کمشنر کی وضاحت سے قبل جب طلبہ شکایت لے کر حکام کے پاس آئے تو اس وقت بھی مختلف لوگ کھلے عام وہاں ویڈیو بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ