اسلام آباد: طلبہ تنظیموں میں تصادم کے بعد اسلامک یونیورسٹی بند

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں جمعرات کی شام کو دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم میں ایک طالب علم ہلاک ہوا ہے جس کے بعد جمعے کو یونیورسٹی بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

20 اکتوبر 2009 کی اس فائل فوٹو میں ایک بم دھماکے کے بعد سکیورٹی اہلکار انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے باہر تعینات۔ جمعرات 12 دسمبر کو  دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم میں ایک طالب علم ہلاک ہوگا تھا۔  (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کے مطابق اسلام آباد میں واقع انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اسلامی جمعیت طلبہ ونگ کے طفیل الرحمن نامی طالب علم گولیاں لگنے سے ہلاک جبکہ 20 کے قریب طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم اور ایک طالب علم کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ ان کا جعمے کو ایک تازہ ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق طلبہ کا ایک گروپ پرامن طریقے سے تقریب منعقد کر رہا تھا کہ دوسرے گروپ نے ان پر حملہ کر دیا جس کے بعد تصادم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے صورت حال اپنے کنٹرول میں لے لی ہے۔

اس سے قبل ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی احاطے میں پولیس اور مجسٹریٹ موجود ہیں اور رینجرز کو بھی بلا لیا گیا ہے۔

 یونیورسٹی انتظامیہ نے اس واقعے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جمعے کے روز جامعہ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں تین روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا تھا میلے کے دو دن لڑکوں جبکہ آخری دن خواتین طلبہ کو بھی شرکت کی اجازت تھی۔

کتاب میلے کے آخری روز خواتین طالبات نے بھی میلے میں شرکت کی جو بظاہر لڑائی کی وجہ بتائی جا رہی ہے۔

اس موقع پر وہاں موجود ایک طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ مونا خان کو بتایا: ’اسلامک یونائیٹڈ سٹوڈنٹ فیڈریشن جس میں تمام صوبائی کونسلز کی نمائندگی ہے نے موقعے پر جا کر اس مسلے کو اٹھایا کہ لڑکیاں میلے میں کیوں آئی ہیں۔ اُسی وقت ہنگامہ برپا ہوئی، ہاتھا پائی سے معاملہ بڑھا اور پھر فائرنگ ہوئی۔‘

عینی شاہد نے مزید بتایا کہ ہنگامے کے وقت نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ طلبہ سے خطاب کر رہے تھے لیکن وہ اس واقعے میں محفوظ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس حکام نے سرائیکی طلبہ گروپ اور جمعیت طلبہ کی لڑائی میں ایک طالب علم کے قتل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 20 طلبہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث 15 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔

یونیورسٹی کے بوائز ہوسٹل میں رہائش پذیر ایک طالب علم نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے بوائز ہاسٹل حالی کروا لیے گئے ہیں اور صرف غیر ملکی طالب علم ہاسٹل میں موجود ہیں۔ طالب علم کے مطابق ہاسٹل خالی کروا کر سب کمروں کی تلاشی لی جائے گی۔ 

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس واقعے کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’‏انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایجوکیشن ایکسپو پر شر پسندوں کا حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کارکنان جمعیت کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔ 

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں تصادم کے نتیجے میں کسی طالب علم کی ہلاکت ہوئی ہو۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں کی جانب سے آرا سامنے آ رہی ہیں کہ یہ طلبہ تنظیمیں لڑائی کی وجہ بنتی ہیں ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ 

ایک صارف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی ہے تو یونیورسٹی کے اندر اسلحہ کیسے گیا جو ہاسٹلز سے لا کر استعمال کیا گیا۔‘ جبکہ ایک صارف نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ اب طلبہ تصادم کو جواز بنا کر طلبہ یونینز کی بحالی پر بھی سوالات اُٹھائے جائیں گے۔‘ 

صارفین نے طالب علم طفیل الرحمن کی ہلاکت پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ 

 

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس