’ڈھولکی بجا کر سکول کی فیس جمع کروں گی‘

ملتان کی 11 سالہ لائبہ سکول جانا چاہتی ہیں، لیکن غربت کی وجہ سے وہ اپنی والدہ سے نسل در نسل چلنے والے ڈھولکی بجانے کے پیشے کو سیکھنے پر مجبور ہیں۔

لال لال کرتی میں گورا سا بدن

پیروں میں پازیبہ کی ہوئی چھن چھن

ماں کے ساتھ اس گانے پر اپنی آواز کا جادو جگاتی ملتان کی 11 سالہ لائبہ، نسل در نسل چلنے والے اس پیشے کو سیکھ رہی ہیں، جس میں شادی بیاہ، بیٹے کی پیدائش کی خوشی یا کبھی کبھی بس یوں ہی ہوٹلوں یا سڑک کنارے ڈھولکی بجا کر لوگوں کو محظوظ کیا جاتا ہے۔

لائبہ کی والدہ ملکہ، جنہوں نے ڈھولکی بجانے کا فن اپنے باپ دادا سے سیکھا، اب اس ہنر کو اپنی اگلی نسل میں منتقل کر رہی ہیں۔

لائبہ کے مطابق: ’میں اپنی ماں کے ساتھ جاتی ہوں اور سیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح ویلیں مانگتی ہیں۔ میں سکول جانا چاہتی ہوں، پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والدین مجھے پڑھا نہیں سکتے، اس لیے ڈھولکی بجانا سیکھ رہی ہوں تاکہ خود پیسے کما سکوں اور سکول کی فیس دے سکوں۔‘

ملکہ نے بتایا: ’ڈھولکی بجانا ہمارے باپ دادا کا کام تھا اور اب ہم کر رہے ہیں۔ ہم ہندوستان سے آئے تھے، پہلے پتلی تماشہ کرتے تھے، اب وقت کے بدلنے سے ہم بھی پتلی تماشہ چھوڑ کر ڈھولکی بجانے لگے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کہیں بھی شادی ہو، کوئی خوشی ہو، ہم وہاں جا کر ڈھولکی بجاتے ہیں اور لوگ ہمیں اس کے عوض کبھی 50 روپے تو کبھی 100 روپے دے دیتے ہیں۔ اس سے گھر چلانا بھی مشکل ہوتا ہے، ایسے حالات میں ہم بچیوں کو پڑھا نہیں سکتے۔ ان کا مقدر بھی ڈھولکی بجانا ہے، جو میں سکھا رہی ہوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’کسی کے گھر خوشی ہو، شادی ہو، ہم ڈھولکی لے کے پہنچ جاتی ہیں۔ آج فلاں جگہ شادی ہے، یہ ہمیں چلتے پھرتے پتہ چل جاتا ہے، کبھی کبھی لوگ بھی بتا دیتے ہیں۔ کبھی روٹی بھی مانگ لیتے ہیں، جس طرح جہاں سے جتنا مل جائے لے لیتے ہیں۔‘

ملکہ کے مطابق: ’میری بڑی بیٹی گڑیا کو یہ کام پسند نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ماں میں نے یہ کام نہیں کرنا لیکن یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے، وہ یہ کام نہیں کرے گی تو کیا کرے گی؟‘

انہوں نے بتایا کہ وہ بچیوں کو ساتھ لے کر جاتی ہیں، جہاں لوگ کبھی اچھی نظر سے تو کبھی بری نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن وہ ساتھ ہوتی ہیں تو کچھ غلط نہیں کہتے۔

لائبہ ڈھولکی بجانے کے اس خاندانی پیشے کو اکیلے نہیں سیکھ رہیں بلکہ ملتان کے نواحی علاقے اور سدرن بائی پاس کے قریب 300 کے قریب خاندانوں پر مشتمل جھگی نشینوں کی اس بستی میں ہر جھگی میں ایک نہ ایک لائبہ، باپ دادا کے پیشے کو اپنا مقدر کا لکھا سمجھ کر فراخ دلی کے ساتھ سیکھ رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل