اب لاہور کا واقعہ بھی اپوزیشن پر ڈال دیجیے

چند دن بعد لاہور واقعہ لوگ بھول جائیں گے۔ اس پر مٹی پاؤ  پروگرام پر عمل ہو گا کیونکہ حکومت جو پہلے ہی متعدد بحرانوں کا شکار ہے کسی نئے منظم گروہ سے تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

لاہور واقعہ لوگ بھول جائیں گے، اس پر مٹی پاؤ  پروگرام پر عمل ہو گا (اے ایف پی)

پوری قوم پچھلے کئی دنوں سے لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا کی طرف سے کی گئی توڑ پھوڑ، پرتشدد کارروائیوں کے بعد انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

حکومتی عمائدین اس معاملے کو بھی حزب اختلاف پر ڈالنے اور حزب اختلاف اسے حکومت کی نا اہلی قرار دے رہی ہے۔ لیکن جس معاملے پر بات نہیں ہو رہی وہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اور معیشت تباہی کے جس راستے پر گامزن ہے اگر اس پر کوئی اصلاح احوال نہ ہوا تو اس سے زیادہ بھیانک واقعات جنم لیں گے۔

آزادی کے بعد، تقریباً ایک چوتھائی صدی بعد پاکستان کو ایک آئین ملا لیکن صرف چار سال بعد ملک میں تیسرا مارشل لا لگ گیا تھا۔ یہ معاملہ یہاں رکا نہیں۔ 1999 میں چوتھا مارشل لا لگ چکا تھا۔ پاکستانیوں نے اب یہ بات اپنے دل و دماغ میں بٹھا دی ہے کہ منظم اور طاقتور گروہوں کی منشا ہی در اصل اصلی قانون ہے۔ حقیقی اقتدار اور طاقت، قانونی طاقت پر فوقیت رکھتی ہے۔

متعدد واقعات اس حقیقت کو بار بار ثابت کرتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں فیض آباد دھرنا جس کے دوران ن لیگ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ وزیر قانون زاہد حامد کو بغیر کسی کارروائی کے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

آئین شکنی کرنے والے  فوجی آمر جنرل مشرف سنگین غداری کے مقدمے میں ابھی تک مفرور ہیں لیکن حکومت بجائے مقدمے کی پیروی کرنے کے استغاثے کے وکلا کو فارغ کرنے اور مشرف کو بچانے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔ قانون کی ںظر میں سب برابر ہیں کا اصول جمہوریت کی روح ہے لیکن جب کچھ  لوگ اور گروہ استثنیٰ حاصل کر لیں تو لاقانونیت کے دروازے  کھل جاتے ہیں۔

اس لیے چند دن بعد لاہور واقعہ لوگ بھول جائیں گے۔ اس پر مٹی پاؤ  پروگرام پر عمل ہو گا کیونکہ حکومت جو پہلے ہی متعدد بحرانوں کا شکار ہے کسی نئے منظم گروہ سے تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

لیکن جو معاملہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے وہ پچھلے انتخابات کے بعد جنم لینے والے نئے سیاسی ڈھانچے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد ترین معاشی بدحالی کا ہے۔ ایک طرف پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی پر کسی قسم کے کنٹرول میں بری طرح ناکام ہوا ہے دوسری طرف پچھلے 15 ماہ سے معاشی تنزلی تیزی سے جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملکی شرح نمو آدھی ہو چکی ہے، روپے کی 35 سے 40 فیصد بےقدری کے باوجود برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد افراط زر اس وقت 15 فیصد، مہنگائی 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بڑی صنعت، درمیانی صنعتیں، سروس انڈسٹری، آٹو موبائیل اور زراعت تنزلی کا شکار ہیں۔ شرح سود دوگنے سے زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ سے نئی سرمایہ کاری ٹھپ پڑی ہے۔ سرمایہ کار پرانے قرضے اتار رہے ہیں اور سارے قرضے حکومت ہی لے رہی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور اس میں نیا خوفناک اضافہ ہاٹ منی کا ہے جس کی وجہ سے ملک مزید قرضوں میں دھنس جائے گا۔

 پچھلے سال دس لاکھ افراد بیروزگار ہوئے، اس سال دس لاکھ لوگ مزید بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ پچھلے سال 80 لاکھ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے گئے اور اندازہ ہے کہ 80 لاکھ مزید افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ اس طرح 40 فیصد پاکستانی غربت کی اس لکیر سے نیچے جانے کے امکانات ہیں۔  

ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اگلے سال کے اواخر تک پونے نو کروڑ کے قریب پاکستانی شدید غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ حکومت کی طرف سے پہلے سے کیے گئے اعلانات جن میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنے اور 50 لاکھ گھر بنانے کے وعدے کیے گئے تھے، شرمندہ تعبیر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

اس صورتحال کے سنگین سماجی، سیاسی، ثقافتی نتائج نکلیں گے اور جس خطے میں پاکستان واقع ہے اور جو سلامتی کے چیلینج پاکستان کو درپیش ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہیں گی۔

اس ابھرتی ہوئی صورتحال پر ملک کے دانشور حلقے، مقتدرہ اور سیاستدان خاموش ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ابتری کےآثار نمایاں ہیں۔ شہروں میں اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں۔ منظم جرائم کے علاوہ یہ ماحول انتہا پسند سیاسی اور دہشت پسند گروہ جن میں طالبان، دائش جیسے گروہوں کی افزائش کیلیے زرخیز زمین کا کام سر انجام دے گا۔ سیاسی جماعتوں کی کمزوری، عوام سے دوری، سیاسی جماعوں میں اندرونی جمھوریت کے ناپید ہونےاور ریاست کے ویلفیئر حصے کے مزید کمزور ہونے سے یہ عناصر مزید مضبوط ہونگے۔ سونے پر سہاگہ موجود سیاسی تناوٗ  ہے جو سیاسی جماعتوں اور ریاست کے طاقتور حصوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ وہ دھماکہ خیز صورتحال ہے جو ملکوں کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر کے ان کے انہدام کا سبب بنتی ہے۔

70 اور 70 کی دہائی کے بعد، بائیں بازو کی سیاست کے خاتمے کے بعد، شہری اور دیہی غریب اور محنت کش طبقات لا وارث ہو گئے ہیں۔ باقی تمام طبقات کی نمائندگی ریاست اور سیاست میں موجود ہے لیکن کروڑہا غریبوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ غربت کی نئی لہر نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

جہاں دانشوروں اور اہل علم کے سوچنے کے لیے اس صورتحال میں بہت کچھ ہے وہاں عملی طور پر بھی کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کساد بازاری کے اس عہد میں سیاسی جماعتوں نے اگر زندہ رہنا ہے تو انہیں خط غربت سے نیچے رہنے والے کروڑوں عوام کے لیے سماجی بہبود کے ایسے پروگرام شروع کرنے ہوں گے جن کے ذریعے اس دھماکہ خیز صورت حال کے آتش فشاں بننے سے روکا جا سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر