انٹارکٹکا کا طویل سفر کرنے کی خواہش مند برطانوی فائر فائٹرز

چلی سے ایک چارٹر جہاز انہیں جنوبی قطب کے راستے انٹارکٹکا کی روس آئیس شیلف پر اتارے گا جہاں سے ہر خاتون کو 85 کلوگرام تک کے سامان سے لدھے سلیڈ کے ساتھ 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی ہواؤں میں سفر کرنا ہوگا۔

اپنے آپ کو انٹارکٹک فائر اینجلز کہنے والی یہ ٹیم صرف جسمانی طاقت اور سکی کا استعمال کر کے جنوبی براعظم کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک کا سفر طے کرنے والی دنیا کی پہلی ایمرجنسی سروس ٹیم بننے کی خواہش مند ہے  (انڈپینڈنٹ اردو) 

ذہنی صحت کے مسائل پر آگاہی پیدا کرنے اور لڑکیوں کو یہ سکھانے کہ ’یہ تاثر کہ خواتین نازک ہوتی ہیں، ایک دقیانوسی  سوچ ہے‘ کے مقصد سے ویلز اور لندن سے تعلق رکھنے والی چھ خواتین فائرفائٹرز انٹارکٹکا کے 19 سو کلومیٹر لمبے روٹ ٹریک کرنے والی خواتین کا پہلا گروپ بننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

نکیٹا روس، جارجینا گلبرٹ، بیکی نیوٹن، ایلیسن کِبیل وائٹ، ربیکا رو اور نِکی اپٹن پر مشتمل یہ ٹیم اپنے آپ کو انٹارکٹک فائر اینجلز کہتی ہے اور صرف جسمانی طاقت اور سکی کا استعمال کر کے جنوبی براعظم کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک کا سفر طے کرنے والی دنیا کی پہلی ایمرجنسی سروس ٹیم بننے کی خواہش مند ہیں۔

اس سے قبل اس روٹ کو پہلے کسی خواتین کی ٹیم نے کور نہیں کیا ہے۔ اس راستے میں انہیں دنیا کے سب سے مشکل ترین ماحول اور موسم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس روٹ میں ٹائٹن ڈوم بھی شامل ہے جو سطح سمندر سے تین ہزار ایک سو میٹر اونچا ہے اور جہاں سخت موسم اور برف کے طوفان پائے جاتے ہیں۔

چلی سے ایک چارٹر جہاز انہیں جنوبی قطب کے راستے انٹارکٹکا کی روس آئیس شیلف پر اتارے گا جہاں سے ہر خاتون کو 85 کلوگرام تک کے سامان سے لدھے سلیڈ کے ساتھ 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی ہواؤں میں سفر کرنا ہوگا۔ گروپ کے اندازے کے مطابق انہیں اس سفر کو مکمل کرنے میں 70 دن لگیں گے۔

آرگنائزر جارجینا گلبرٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس سفر کے لیے انہیں بہت سی تیاریاں کرنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ تیاری کے لیے ناروے، گرین لینڈ اور کینڈا میں جائیں گی اور پھر نومبر 2023 میں انٹارکٹکا کا رخ کریں گی۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے بہت سے مختلف علاقوں میں ٹرینگ کی ہے خاص طور پر طبی ٹریننگ اور  گہری کھائیوں میں۔ وہاں کی زمین میں کئی ایسی کھائیاں ہیں، گلیشیر میں شگاف جہاں آپ گر کے زخمی ہو سکتے ہیں۔‘

’ہمیں سب سے بڑا خطرہ موسم سے ہے۔ ہمارے پاس سیٹیلائٹ فون ہوں گے لیکن وہاں موسم  ناقابلِ پیشگوئی ہے۔ ہم خود کو جسمانی طور پر تو تیار کر سکتے ہیں مگرسچ یہی ہے کہ کچھ بھی پکا نہیں ہے اور ہم اس سفر سے ہونے والی ذہنی تھکن کے لیے بہتر تیار نہیں ہو سکتے۔‘

ٹیم کو یہ سفر ختم کرنے کے لیے 85 دن کا وقت ملے گی نہیں تو انٹارکٹک کا چوٹا موسم گرما ختم ہو جائے گا وہ خود کو لمبے عرصے تک اندھرے میں پائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیم کی ارکان جانتی ہیں کہ یہ ان کی برداشت کا امتحان ہوگا  مگر وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

گلبرٹ نے کہا: ’اس سفر کا مقصد آنے والی نسل کو متاثر کرنا ہے۔ ہم خواتین کے بارے میں قائم شدہ سٹریو ٹائپس کو توڑنا چاہتے ہیں اور لڑکیوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ طاقتور اور سخت بھی ہو سکتی ہیں، وہ فائرفائٹر، فوجی اور پولیس میں کام کرسکتی ہیں۔‘

’ہمیں نہیں پرواہ کہ معاشرہ کیا کہتا ہے، جب آپ اپنا ذہن کسی چیز پر لگاتے ہیں تو آپ بالکل اسے کر سکتے ہیں۔‘

ٹیم میں تین خواتین ویلز کے فائر سٹیشن سے ہیں اور تین لندن کے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سفر کرنے پر متاثر ایک خاتون فوجی کو سن کر ہوئیں جنہوں نے ایسا ہی ایک سفر طے کیا تھا۔

سٹیریو ٹائپ ختم کرنے کے علاوہ گروپ کا مقصد ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا بھی ہے۔ خاص طور پر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آڈر یا پی ٹی ایس ڈی جس کی شکار گروپ کی دو ارکان ہیں۔

ان میں سے دو خواتین لندن میں 2017 میں گرینویل ٹاور میں لگنے والی آگ بھجانے والی ٹیموں کا بھی حصہ تھیں جس کا ان کی ذہنی صحت پر گہرا اثر پڑا ہے۔

گلبرٹ نے کہا: ’ذہنی صحت ہمارے گروپ کے لیے بہت اہم ہے۔ ہم میں سے کچھ نے گرینفیل میں آگ بھی دیکھی اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے بارے میں بات کرنا کتنا ضروری ہے اور  یہ ہمیں نئی نسل سے بات کرنے میں بھی مدد کرے گا۔

اگلے تین سال میں جب یہ گروپ اس سفر کے لیے ٹریننگ کرے گا تو وہ سپانسرز کی بھی تلاش میں ہیں جو انہیں آلات، غذا، ٹیکنالوجی اور دیگر تکنیکی سپورٹ فراہم کریں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین