فون پر نام جلدی کیوں نہیں بتاتے یار؟

پتہ نہیں کیوں ہم یہ تصور کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ سامنے والے کے اندر ہمارا پورا بائیوڈیٹا انسٹال ہے۔ وہ ہماری آواز سنے گا اور اس کے دماغ میں ہماری تصویر بن جائے گی۔

اتنے فاسٹ دور میں کیسے ممکن ہے کہ آپ کچھ بھی نہ کر رہے ہوں؟ تو جب فون آتا ہے تو سب سے پہلے اس سب کچھ کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے (پکسابے)

یہ ہمارا قومی مرض ہے۔ اللہ کے فضل سے ہم جتنے مرضی بڑے عہدے پر پہنچ جائیں، مریخ کی تصویریں لانے والے سائنس دان بن جائیں یا بھلے فل ٹائم بائیسویں گریڈ کے دانشور ہوں، ہم نے اپنا جو نام ہے نا، وہ نہیں بتانا کبھی بھی، نہ فون پہ، نہ ہی دروازہ بجانے پر۔ 

پتہ نہیں کیوں ہم یہ تصور کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ سامنے والے کے اندر ہمارا پورا بائیوڈیٹا انسٹال ہے۔ وہ ہماری آواز سنے گا اور اس کے دماغ میں ہماری تصویر بن جائے گی، وہ ہمیں دیکھے گا اور دیکھتے ہی زور سے پکارے گا، ارے حسنین جمال، کیسا ہے جانی، کہاں رہتا ہے یار، میں روز تیرے بارے میں سوچتا ہوں، ابھی بس فون کرنے ہی والا تھا کہ تو آ گیا۔ اور سنا؟

کئی جگہ ایک واقعہ پڑھا کہ کسی مشاعرے سے پہلے ایک شاعر ہوٹل کے دروازے پر کھڑے تھے کہ اچانک ان کی نگاہ سامنے سے آتے ہوئے جون ایلیا پر پڑی۔ انہوں نے کھڑے کھڑے دونوں بازو پھیلائے اور بڑی اپنائیت سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے ’اوئے جون تو!‘

لکھنے والوں نے لکھا کہ جون ایلیا ایک بار تو رک گئے، ایک لمحے کو سوچا اور پھر اچانک اوئے تو، اوئے تو، اوئے تو کہتے ہوئے ان کی طرف اسی والہانہ پن سے لپکے اور اچھل کر ان کی گردن سے لٹک گئے، اپنی دونوں ٹانگیں شاعر صاحب کی کمر سے لپیٹیں اور چپک کر بہت سارا پیار بھی کر دیا۔ وہیں کھڑے ایک اور صاحب علم نے اسی وقت تصویر کھینچ لی۔ اسی دوران آس پاس کافی شاعر ادیب اکٹھے ہو گئے تھے، سب کو تفریح آ رہی تھی۔ اب جیسے ہی تصویر کھنچی ہے تو شاعر صاحب نے جون ایلیا کو فورا گود سے نیچے اتارا، آس پاس کھڑے لوگوں سے ملے اور وقوعے سے غائب ہو گئے۔ ان کے جاتے ہی جون ایلیا بے ساختہ بولے ’جانی، کون تھا یہ؟‘

تو اس طرح کے بے شمار واقعے آئے دن پیش آتے ہیں، بڑا دل کرتا ہے کہ ردعمل بھی جون صاحب والا ہو لیکن عام آدمی خاص نہیں ہو سکتا چاہے لاکھ کوشش کرے۔ ایک دن فون آیا، نمبر سیوڈ نہیں تھا، اٹھایا اور ایک طویل مکالمہ ہوا۔ فون پہ انہوں نے بس میرا شناختی کارڈ نمبر نہیں بتایا باقی سب کچھ انہیں معلوم تھا۔ نام پوچھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ تو سوچ۔ تو مجھے نہیں پہچان رہا؟ بڑی دیر ضبط کیا آخر الجھ کر کہا کچھ نہیں بس فون بند کر دیا۔ دوبارہ فون آیا، اٹھایا، تھوڑی دیر اور انہوں نے چیزے لیے اس کے بعد بتایا کہ وہ کون ہیں۔ تب تک میں تھوڑی رکھائی سے بات کرنا شروع کر چکا تھا۔ اس کے بعد آج تک فون دوبارہ نہیں آیا۔ بہت محترم تھے، محسن تھے، لیکن نام بتاتے تب نا بھائی!

ہم سب مصروف ہوتے ہیں۔ نہیں بھی ہوتے تو کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں۔ سوچ نہ رہے ہوں تو کھانا کھا سکتے ہیں، نہانے گھسے ہو سکتے ہیں، گاڑی چلاتے ہوئے فون اٹھا سکتے ہیں، کچھ پڑھ لکھ سکتے ہیں، کسی ضروری کام سے سو سکتے ہیں، کچھ نہ کچھ بہرحال چل رہا ہوتا ہے۔ اتنے فاسٹ دور میں کیسے ممکن ہے کہ آپ کچھ بھی نہ کر رہے ہوں؟ تو جب فون آتا ہے تو سب سے پہلے اس سب کچھ کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔

قسم سے بعض اوقات تو ایک چھناکے سے ٹوٹتا ہے۔ اس کے بعد آگے والا نام بھی نہ بتائے؟ مطلب یار کتنی دیر آپ برداشت کر سکتے ہیں؟ کبھی موڈ ہوتا ہے لیکن فقیر کا تو ننانوے فیصد وہ ’کبھی‘ نہیں آتا۔ تو اس طرح پہیلیاں بجھوا کر ایک تو فون کرنے والا دونوں کا مجموعی وقت ضائع کر رہا ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ایویں کی تپ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ بات سمجھیں۔ فون گم ہو گیا، چوری ہو گیا، خراب ہو گیا، ڈیٹا صاف ہو گیا، کچھ بھی ہوا اور آپ کا نمبر غائب ہو گیا۔ اب کیا آپ اس بات کی اتنی بڑی سزا دیں گے کہ نام بتانے میں سات منٹ گلا دیں گے؟ اور جب بتائیں گے تو ایک منٹ بعد ’اور سناؤ‘ بھی کہیں گے؟

اسی طرح ڈور بیل کا معاملہ ہے۔ اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑے ہو کر تو ’کون‘ کا جواب دیتے ہوئے ’میں‘ کہنا سمجھ آتا ہے لیکن کسی قریبی عزیز کے یہاں جا کر یہ ’میں ہوں‘ کہنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ بندہ مشکل سے ایک دو گھر والوں کے علاوہ کسی کی ’میں‘ پہچانتا ہے، آپ ہر جگہ میں میں کیسے چلا سکتے ہیں؟

ایک چیز اور بھی ہے لیکن سوچنے میں کیا حرج ہے۔ اگر کوئی بہت ضروری کام ہے تو فون کرنا بنتا ہے ورنہ وہی بات میسج میں بھی کی جا سکتی ہے اور اس میں انتہائی کم وقت لگے گا۔ ’سلام، حسنین بات کر رہا ہوں، آپ نے بل فلاں کام کر دیا؟‘ یہ ٹائپ کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے یار؟ اس کی بجائے آپ فون کریں گے، گھنٹی جائے گی، آٹھویں بیل پہ وہ اٹھائے گا تو آپ فون رکھ دیں گے۔ دوسری بار فون ملائیں گے تو دونوں کا نمبر بزی ملے گا کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کو فون لگا رہے ہوں گے۔ پھر ایک منٹ کے وقفے کے بعد آپ دوبارہ فون کریں گے تو نام بتانے کی بجائے آنکھ مچولی کھیلنے لگیں گے۔ کل ملا کے بیس پچیس منٹ ضائع ہوں گے، اگلے بندے پہ تاثیر ان کی شام تک باقی رہے گی، آپ کا جاتا کیا ہے بھائی، آپ کی دل لگی ٹھہری!

جاتے جاتے میسج کا ذکر آ گیا تو ایک اور بات کر لیتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی کو فیس بک پر میسج بھیجا، یا واٹس ایپ پر بھیجا تو آپ کے خیال میں ریسیو کرنے والے پر اسی وقت اس کا جواب دینا فرض ہے؟

دلیل پیش کی جاتی ہے ’بھئی جب اس کی بتی سبز ہے، سین والے ٹک کے نشان بھی نیلے ہو گئے، تو اس کا مطلب دیکھ لیا نا؟ تو جواب کیوں نہیں دیا فوراً؟‘ جواب اس لیے نہیں دیا کہ جیسے ہی فرصت ملے گی، جواب دے دیا جائے گا۔ دفتری کام بھی سوشل میڈیا پہ ہو رہے ہوتے ہیں، آفس والوں سے آپ کا رابطہ واٹس ایپ پہ رہتا ہے، کسی سے کچھ پوچھنے آپ فیس بک پر چلے جاتے ہیں، تو خاص طور پہ ان دونوں ایپس کا استعمال تو اب دفتری زیادہ اور گھریلو کم ہو گیا۔ اب اگر دفتری اوقات میں بتی جلتی ہے یا لاسٹ سین دو منٹ پہلے ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلا کسی ضروری کام سے وہاں موجود ہو اور آپ کے میسج کا جواب فرصت سے دینا چاہتا ہو؟ خط خط کھیلنا بھول گئے؟

ٹیکنالوجی نے ہماری اوقات اور سپیس دونوں کی ایسی تیسی پھیر دی ہے۔ ایک دن خط لکھتے تھے، دو دن بعد پوسٹ ہوتا تھا، تین دن بعد ملتا تھا، دس پندرہ دن میں جواب آنے کا سین بنتا تھا۔ ٹیلیگرام زیادہ تر موت کے آیا کرتے تھے اور فون؟ ابھی بیس سال پہلے تک فون سننے بندہ ساتھ والوں کے گھر جاتا تھا۔ ٹرنک کال ملانا ہوتی تھی تو بکنگ کروانا پڑتی تھی۔ اس وقت یہ والے ضروری میسج نہیں ہوتے ہوں گے کیا؟ تب کیوں ہم سب آرام سے انتظار کر لیتے تھے اور اب کیوں جلتے توے پہ بیٹھے رہتے ہیں؟

تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھو، خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔ بڑوں کو دعا، چھوٹوں کو پیار، والسلام!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ