بلوچستان کی پتھر سے بنی روٹی ’کرنو‘

بلوچ قبائل ایک ایسی روٹی بناتے ہیں جو پتھر سے پکائی جاتی ہے، اسے بلوچ اور براہوی قبائل ’کرُنو‘ کہتے ہیں۔

بلوچستان جسے سنگلاخ چٹانوں اور دشت و بیابانوں کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں کے قبائل اکثر پہاڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ پتھر اور بلوچستان کے قبائل کا ساتھ زمانہ قدیم سے رہا ہے جو معدنی وسائل دینے کے ساتھ ان کے مسائل کا حل بھی ہوتے ہیں۔  

بلوچ قبائل ایک ایسی روٹی بناتے ہیں جو پتھر سے پکائی جاتی ہے، اسے بلوچ اور براہوی قبائل ’کرُنو‘ کہتے ہیں۔

کرُنو یعنی پتھر سے پکائی جانے والی روٹی بلوچستان کے بلوچ قبائل میں ایک مشہور روٹی ہے جسے اکثر گلہ بان پہاڑوں میں بکریاں چرانے کے دوران پکاتے ہیں۔

محمد رحیم گلہ بان تو نہیں تاہم ان کے آباؤ اجداد کا پیشہ گلہ بانی رہا ہے اس لیے وہ بھی کرُنو پکانے کے ماہر ہیں۔

بلوچستان کے علاقے منگوچر کے رہائشی محمد رحیم کے مطابق یہ ایک آسان اور سہل طریقہ ہے جہاں آپ پہاڑوں پر سفر کر رہے ہوں اور آپ کو روٹی کی طلب ہو۔

محمد رحیم کہتے ہیں کہ یہ ایک قدیم طریقہ ہے جس کے ذریعے ہمارے آباؤ و اجداد جو پہاڑوں پر رہائش رکھتے تھے اپنا گزر بسر کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول کرنو پکانے کے لیے پہلے آپ کو کوئی جگہ تلاش کرنا ہوگی پھر اس کے بعد پتھر لانے ہوں گے جو گول ہوں۔

آگ لگانے کے بعد مطلوبہ پتھر اس میں رکھ دیے جاتے ہیں جو گرم ہوکر سفید ہو جاتے ہیں۔

محمد رحیم کے مطابق پتھر جب تک گرم ہوتے ہیں ہم آٹا گوندھتے ہیں جسے سخت کر کے گوندھا جاتا ہے۔

’آٹا اگر نرم ہو تو آپ کا ہاتھ جل سکتا ہے اس کے بعد ہم وہ گوندھا ہوا آٹا آگ میں گرم ہوئے پتھر کے گرد لپیٹ دیتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان کے اکثر لوگوں کا پیشہ گلہ بانی ہے اور چرواہے گھاس کی تلاش میں اکثر ہفتوں پہاڑوں میں ہی رہائش رکھتے ہیں جن کی خوراک کا ذریعہ یہی ہوتا ہے۔

محمد رحیم کے مطابق آٹا لپیٹتے وقت اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ مکمل لپیٹ دیا جائے اگر کوئی سوراخ ہو جائے تو وہ بہتر طریقے سے نہیں  پک سکتی۔

اس کے بعد پتھر کو آگ کے قریب رکھ دیا جاتا ہے اور وہ اندر سے پتھر کی وجہ سے اور باہر سے آگ کی تپش سے پک جاتا ہے اس دوران اس کا رخ بھی تبدیل کیا جاتا ہے۔

قبائلی علاقوں کے رہنے والے اس کے استعمال سے واقف ہیں تاہم شہر کے لوگ پتھر سے پکائی  جانے والی اس روٹی سے واقف نہیں۔

محمد رحیم کے مطابق نوجوان نسل کرنو کو نہیں جانتی نہ ہی وہ پکانے کے طریقےسے واقف ہے۔

محمد رحیم سمجھتے ہیں کہ اگر اس طریقہ کار کو اگلی نسل تک منتقل نہیں کیا گیا تو شاید آنے والے وقتوں میں یہ صرف کتابوں تک محدود رہ جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا