نئے عشرے میں پاکستان کو درپیش پانچ چیلنج: حصہ اول

نائن الیون کے واقعات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بنیادی طور پر افغان تنازع، امریکہ بھارت سٹریٹجک شراکت داری اور پاکستان چین لازوال دوستی کے رنگوں میں رنگے ہوئے ہیں۔

خارجہ پالیسی ملکی دفاع کی پہلی لائن اور بیرون ملک اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کا کلیدی ذریعہ سمجھا جاتا ہے (اے ایف پی)

خارجہ پالیسی ملکی دفاع کی پہلی لائن اور بیرون ملک اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کا کلیدی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ذیل کے صفحات پاکستان کے خارجہ تعلقات میں عشرہِ رواں میں درپیش پانچ اہم چیلنجوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔

امریکہ


پاکستان کے خارجہ امور میں امریکہ کے ساتھ تعلقات سے زیادہ چیلنج کسی اور جگہ ملنا محال ہے۔ ۔ ان تعلقات کی غالب خصوصیت دو طرفہ مایوسیاں اور شکایات ہیں جن پر بین الاقوامی نظام میں رونما ہونے والی یادگار تبدیلیوں کا بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

نائن الیون کے واقعات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بنیادی طور پر افغان تنازع، امریکہ بھارت سٹریٹجک شراکت داری اور پاکستان چین لازوال دوستی کے رنگوں میں رنگے ہوئے ہیں۔

براک اوباما کے دور حکومت (2009-2016) میں ایف پاک پالیسی اور ’ڈو مور‘ کی گردان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک گھمبیر چیلنج پیدا کر دیا، لیکن ہماری پالیسی میں معمولی رد و بدل کے علاوہ کوئی واضع تبدیلی نظر نہ آئی۔

دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے لیے امریکی چھاپہ مار کاروائی کے بعد تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ حکومت کو اندوونی اور بیرونی محاذوں پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے بعد نومبر میں امریکہ کے ایک فضائی حملے میں 24 پاکستانی افراد کی ہلاکت کے اندوہناک واقعے نے پاکستان کو کئی مہینوں کے لیے افغانستان میں امریکی افواج کی سپلائی کے راستے بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جسے وسطی ایشیا افغانستان کے مشکل اور مہنگے رستے کو استعمال کر کے حل تو کر لیا گیا لیکن امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دوبالا ہو گیا۔

اوباما انتظامیہ کے بعد کے سالوں میں امریکہ افغانستان میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکہ کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ وہ کابل میں طالبان کو دوبارہ اقتدار میں نہ آنے دے اور حکومت کسی ایسی پارٹی کے حوالے کر کے جائے جس پر وہ اعتماد کر سکے۔ اس میں امریکہ کو ہندوستان کی بھر پور مدد حاصل رہی ہے۔ تاہم امن اور سلامتی کے پیشِ نظر پاکستان کے اپنے تحفظات ہیں خاص طور پر جبکہ بھارت نے پاکستان کے حصار اور اسے تن تنہا کرنے کی پالیسی کا ببانگِ دہل اعلان کر رکھا ہے۔ افغانستان میں دو اہم ترین طاقتوں کے یہ متضاد مفادات ان کے مابین بامعنی تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ اور یہ یقیناً سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا واضح حل ابھی تک نظر نہیں آیا۔

 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب نے امریکہ - پاکستان تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے مختلف بیانات میں بھارت کو تو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے اجاگر کیا جو دہشت گردی سے نبرد آزما ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کیا۔ ٹرمپ کی بھارت کو افغانستان میں دخل اندازی تیز تر کرنے کی شہ نے پاکستان میں مایوسی اور غصے کے ملے جلے جذبات میں اضافہ کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے 2018 کے پہلے ٹویٹ میں پاکستان پر الزام لگا کر کہ امریکہ کی 33 ارب ڈالر کی امداد کے بدلے پاکستان نے صرف ’جھوٹ اور دھوکہ‘ دیا ہے، پاکستان امریکہ تعلقات کو پست ترین سطح پر پہنچا دیا۔ اس کے فوراً بعد ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی فوجی اور دفاعی امداد معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسلام آباد میں اتفاق رائے یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں واشنگٹن کی ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات سال بھر چلتے رہے۔ تاہم سال کے آخر میں ٹرمپ نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک خط میں افغان طالبان کو مذاکرات پر تیار کرنے کے لیے اسلام آباد کی مدد کی درخواست کی اور حالات نے قدرے بہتری کر طرف پلٹا کھایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم عمران خان کے جولائی 2019 کے دورہ امریکہ میں تعلقات کچھ حد تک بحال ہوتے نظر آئے ہیں۔ افغانستان ایک بار پھر ٹرمپ عمران مذاکرات کا کلیدی ایجنڈا رہا۔ سرِ راہے دوسرے موضوعات بھی زیر بحث آئے جس میں ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش اہم تھی۔ لیکن یہ تجویز، جو بنیادی طور پر پاکستان کو زیرِ دام لانے کی ایک کوشش تھی، بھارت کے سخت ردعمل کا زیادہ دیر تک سامنا نہ کر سکی۔

اپنے انتخابی وعدے کی تکمیل کے لیے ٹرمپ جلد سے جلد افغانستان سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کے مرکزی کردار سے بخوبی واقف ہیں۔ اس مقصد کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور منعقد کیے گئے لیکن معاہدے پر دستخط ہونے سے چند روز قبل معطل کر دیے گئے۔ ستمبر 2019 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقعے پر عمران ٹرمپ میٹنگ میں افغانستان دوبارہ مرکزی نکتہ رہا۔ عمران خان نے امریکہ طالبان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا، جو حال ہی میں دوبارہ شروع کر دیے گئے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے آئندہ عشرے میں امریکہ پاکستان تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقابلِ پیشین گوئی رویہ کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی ممکن ہے۔ طالبان سے دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات کے نتائج انتہائی اہم ہوں گے۔ دونوں ممالک کے لیے افغانستان میں اپنی پالیسیوں پر سمجھوتہ کرنا ناممکن نہیں ہے لیکن جب بات امریکہ اور بھارت کی سٹریٹجک شراکت داری اور چین کو حصار میں لینے کی امریکہ بھارت مشترکہ کوششوں کی ہو تو یقیناً تنازعات میں اضافہ ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جدوجہد ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

بھارت


پاکستان اور ہندوستان کی خارجہ پالیسیاں شروع سے ہی ان کی باہمی مخالفت کی آئینہ دار رہی ہیں۔ مثلاً امریکہ، بھارت کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو درپیش چیلنجوں کی انتہا نظر نہیں آتی۔

سنہ 2014 میں بھارت میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعددونوں ازلی دشمنوں کے تعلقات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ مودی کی انتہا پسند ہندوتوا کی پالیسی کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ نواز شریف کے خاندان میں شادی میں مودی کی غیر اعلانیہ شرکت اور اس طرح کے دیگر اقدامات مودی کی شعبدہ بازیوں کے علاوہ کچھ ثابت نہ ہوئے۔ ستمبر 2016 میں مودی نے اُری میں بھارتی فوج کے ایک یونٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے کی جوابی کارروائی میں پاکستان کے خلاف نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تاہم ثبوت کے طور پر کچھ نہیں پیش کیا جا سکا۔ بھارت کے ایٹمی کولڈ سٹارٹ نظریے کے اعلان نے پاکستان کو بھی اپنے نیوکلیائی نظریے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

مودی کے تحت ہندوستان عالمی سطح پر اپنا ’حقدار‘ مقام حاصل کرنے کی پرانی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ اس مقصد کے لیے گذشتہ حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ 2008 میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان سویلین جوہری تعاون کے معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکہ بھارت کی مدد سے چین کا گھیراؤ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ ہندوستان چین کے مقابلے میں علاقائی اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ تاہم شراکت دار چین کی مدد سے پاکستان ہندوستان کے ان خطرناک منصوبوں کے سامنے مضبوطی سے کھڑا ہے۔

اپریل 2019 کے چناؤ میں دوبارہ جیت نے مودی کا حوصلہ اور بھی بڑھا دیا ہے۔ اپنے انتخابی ایجنڈے کے مطابق مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق نمبر 370 معطل کر کے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام بھی سخت غم و غصے کی حالت میں ہیں (اس پر مزید تفصیلات آگے دیکھیے)۔

سال رواں فروری میں پلوامہ میں پولیس اہلکاروں کی بس پر خودکش حملہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر فضائی حملوں کی خبریں آئیں۔ پاکستان نے بھارتی لڑاکا طیارہ گرا کر اس کے پائلٹ کو پکڑ کر لیا جسے بعد میں امن کے پیغام کے طور پر رہا کر دیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کو تجارت میں دی گئی خصوصی رعایت (ایم ایف این) واپس لے لی اور کشمیر کے درمیان بس سروس پرپابندی لگا دی۔

عمران خان کے کرتار پور راہداری کھولنے اور کنٹرول لائن پر کسی طرح کے بھی جہادی عمل کو روکنے کے اقدامات کو سراہا گیا ہے لیکن ہندوستان کی طرف سے کسی ایسے مثبت اقدام کی توقع رکھنا عبث ہے۔

بھارتی حکومت کی اپنی ہی مسلم اقلیت دشمنی میں رہا سہا شک بھی چند دن قبل بھارتی پارلیمان کی قانونِ شہریت میں تبدیلی کی منظوری سے دور ہو گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہریت ملے گی لیکن مسلمانوں کو کوئی ایسی سہولت نہیں ملے گی۔ اس مضحکہ خیز قانون کی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مذمت جاری ہے۔

مودی کے بھارت میں شدت پسند قوتوں کے عروج کی وجہ سے ہندوستان - پاکستان دوطرفہ تعلقات میں عدم استحکام کی ایک نئی جہت شامل ہو چکی ہے۔ پاکستان کو ایک مربوط طویل المیعاد 'ہندوستان پالیسی' جس پر قومی اتفاق رائے ہو، تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کو ضرر پہنچانے کے ہندوستان کے منصوبوں کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود مواقع کا حتیٰ المقدور فائدہ اٹھایا جائے۔

(اس خصوصی مضمون کی اگلی قسط کل پیش کی جائے گی)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر