’والد نے کہا جو بھی کرو خود کو محفوظ رکھ کر کرو‘

زرنش کے انسٹاگرام پر 16 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بس عوام کا پیار ہے اور میں خدا کی شکر گزار ہوں۔

پاکستانی اداکارہ زرنش خان 2014 سے اداکاری کے میدان میں مصروفِ عمل ہیں اور انہوں نے ’سسرال میرا‘، ’لاج‘ اور ’محبت اب نہیں ہوگی‘ جیسے معروف ڈراموں میں کام کیا ہے، جبکہ انہیں ’سسرال میرا ‘ کے لیے 2015 میں بہترین اداکارہ کا ’ہم ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔

تمام تر شہرت کے باوجود زرنش نے تاحال خود کو صرف ڈراموں میں اداکاری تک ہی محدود رکھا ہوا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب وہ شوبز کے دیگر شعبوں میں بھی قسمت آزمائیں گی۔

انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے زرنش کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود کو صرف ڈراموں تک محدود اس لیے کر رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ آہستہ آہستہ قدم اٹھانا ہی بہتر ہوتا ہے اور جلد بازی میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے کام شروع کیا تھا اس وقت وہ بہت کم عمر تھیں اور ان کے گھر والوں کو بھی کافی تحفظات تھے۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ جو بھی کرو خود کو محفوظ رکھ کر کرو۔ اس لیے میں نے خود کو ڈراموں میں اداکاری کی حد تک محدود رکھا اور انہیں افراد کے ساتھ کام کیا جنہیں یا تو میرے شوہر جانتے ہیں یا پھر جن کے ساتھ ہمارے خاندانی مراسم ہیں۔

تاہم ’اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دیگر کام بھی کروں گی لہٰذا اب میں انٹرویوز کے علاوہ فیشن ماڈلنگ، ریمپ اور امید ہے فلم میں کام کروں کیوںکہ میں اتنے عرصے سے کام کر رہی ہوں اور اب میں ماحول کو سمجھ گئی ہوں۔‘

اپنے ڈرامے ’عشق زہے نصیب‘ میں اپنے اچھوتے کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کردار نہ صرف ان کے دل کے بہت ہی قریب ہے بلکہ وہ طویل عرصے سے ایسا کوئی کردار کرنا چاہتی تھیں۔ اس کردار میں کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور یہ کافی منفرد کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ایسا کردار اس سے پہلے کسی اور نے نہیں کیا‘ کیونکہ اتنی ضدی اور خودسر لڑکی کا کردار کرنا جس سے دنیا پیار کرے آسان نہیں تھا اور یہ میرے لیے چیلنج تھا۔ زرنش کے مطابق کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا، اگر ہم کچھ وقت دیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا وجہ ہے کہ وہ اتنا سخت ہے۔ تو شکر ہے کہ وہ پیغام پہنچ گیا، عوام کو مزہ آرہا ہے وہ اس کردار کو پسند کررہے ہیں اور مجھے خود یہ کردار کرکے بہت مزہ آیا۔

زرنش خان کے ایک دوسرے ڈرامے جس کا نام ’کُن فیاکُن‘ سے تبدیل کرکے ’جو تو چاہے‘ رکھا گیا کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں ہوا کہ کوئی مسئلہ تھا بھی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرامے کا نام قرآنی آیت پر تھا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے تحفظات تھے اور کیونکہ ہم لوگوں کے لیے ہی ڈرامہ بناتے ہیں تو ٹھیک ہی ہے نام بدل دیا گیا اور لوگوں کا شکریہ جو وہ ہمیں پیار دیتے ہیں۔

2015 میں اپنے کیریئر کے آغاز ہی سے زرنش ہمیشہ مثبت کردار ہی ادا کرتی آئی ہیں، البتہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وہ اپنے ایک ڈرامے ’محبت نہ کریو‘ میں منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔ تو یہ منفی کردار کرنے کا خیال کیوں اور کیسے آیا اس بارے میں زرنش کا کہنا تھا کہ ایک ہی طرح کے کردار ادا کر کر کے اداکار بھی اکتا جاتا ہے اور دیکھنے والے بھی چاہتے ہیں کہ کچھ مختلف کردار میں نظر آئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لوگ مجھے کہتے تھے کہ آپ ہر وقت روتی رہتی ہیں اور آپ روتی ہیں تو ہم روتے ہیں اس لیے میں اپنے ناظرین کو مزید رُلانا نہیں چاہتی تھی اور میں انہیں اور خود کو ایک بریک دینا چاہتی تھی۔

زرنش نے یہ بھی کہا کہ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم ڈرامے میں خود نہیں ہوتے بلکہ کوئی نہ کوئی کردار نبھا رہے ہوتے ہیں اس لیے کسی کردار ادا کرنے والے کو ویسا نہیں سمجھنا چاہیے۔

فلموں میں کام کرنے سے متعلق زرنش کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت فلم میں کام کریں گی جب انہیں کوئی ایسا کردار ملے گا جو انہیں محسوس ہوگا کہ ان کے لیے بنا ہے یا لکھا گیا ہے۔

یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ زرنش کو ایک بالی وڈ فلم کی بھی پیشکش ہوئی تھی جو انہوں نے مسترد کر دی تھی۔ اس بارے میں زرنش کا کہنا تھا کہ انہیں وہ کردار سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور ویسے بھی ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ملک ہی میں زیادہ سے زیادہ کام کریں۔

زرنش نے بتایا کہ انہوں نے جب اداکاری شروع کی تھی وہ صرف ایک ہی ڈرامے کا سوچ کر اس فیلڈ میں آئیں تھی تاہم جب عوام کی جانب سے اتنا زیادہ سراہا گیا تو سوچا کہ اس کو ہی اپنا کیرئیر بنا لیا جائے۔

زرنش کے انسٹاگرام پر 16 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بس عوام کا پیار ہے اور میں خدا کی شکر گزار ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی