پاکستان کے خارجہ تعلقات میں 5 اہم چیلنج: حصہ دوم

2010 سے لے کر 2019 تک پاکستان کو خارجہ تعلقات میں کون سے چیلنجوں کا سامنا رہا؟

وزارتِ خارجہ امور اس عشرے میں خاصا مصروف رہی (وزارتِ خارجہ امور)

(اس مضمون کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے)

کشمیر:

خطہ کشمیر عام طور پر ایٹمی فلیش پوائنٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آئین کی شقوں 370 اورA 35 کو منسوخ کر کے ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا بھارتی فیصلہ حالیہ تاریخ میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

کشمیر کو جذب کرنے کے پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے وادی میں نافذ ظالمانہ کرفیو اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بارے میں بھارتی دعووں کے نتیجے میں یکسر نئی اور خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے حالات اور بھی گھمبیر ہو سکتے ہیں۔

آٹھ لاکھ کشمیریوں کا لاک ڈاؤن انسانی حقوق کی سب سے قابل مذمت خلاف ورزی ہے جس پر عالمی برادری کو آواز اٹھانی چاہیے لیکن اپنے مفادات کی خاطر انسانی حقوق کے علم برداروں نے چپ سادھ رکھی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کشمیر پر شاندار تقریر کا وقتی اثر تو ضرور ہوا لیکن اس کے دور رس اثرات نظر نہیں آئے۔

بظاہر بھارتی حکومت کشمیریوں کو نئی صورت حال قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے وقت کا سہارا لے رہی ہے اور بین الاقوامی مداخلت سے بچنے کے لیے ان کی نسل کشی جیسے اقدام سے گریز کر رہی ہے۔ پاکستان اس منظر نامے میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اب انتظار اس بات کا ہے کہ جب کشمیر سے کرفیو اٹھایا جائے گا تو وہاں کے عوام کیا کرتے ہیں۔

کشمیر میں بھارتی چالوں سے نمٹے کے لیے بہت ساری تجاویز گردش میں ہیں لیکن کوئی بھی تجویز قابل عمل نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر کیا پاکستان مقبوضہ کشمیر  میں فوجی مداخلت کرسکتا ہے یا وادی میں لوگوں کو ایٹمی کور دے سکتا ہے؟ جواب نہیں میں ہے کہ ایسی تجاویز ناقابل تصور نتائج کی حامل ہیں۔

بظاہر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہندوستان اب مقبوضہ کشمیر میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی یا کشمیر کی سابقہ خود مختار حیثیت بحال کرے گا۔  پاکستان کے ساتھ بامقصد بات چیت بھی بھارتی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اسلام آباد کو اس بات پر تیار رہنا چاہئے کہ بھارت آزاد کشمیر اور جی بی میں بغاوت کے جراثیم پھیلانے کی مزموم کوشش کر سکتا ہے۔ حکومت کو ان علاقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود، ترقی اور انکے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔

افغانستان:

مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک اور مشکل ترین چیلنج پیش کرتے ہیں۔ دونوں ممالک یک دھڑ جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں لیکن جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی عوامل کی وجہ سےمعمول کے تعلقات پروان چڑھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا امکان کم ہے۔

افغانستان میں پاکستان کا کردار ہمیشہ سے ایک متنازع مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان پر الزام ہے کہ وہ کابل میں پاکستان نواز حکومت کی تنصیب چاہتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت کو افغانستان میں جگہ نہ مل پائے اور ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ بھڑک نہ سکے۔ پاکستان کے تعلقات حامد کرزئی حکومت کے ساتھ زیادہ تر کشیدہ رہے ہیں اور یہی صورت حال اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی ہے۔ فریقین ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے رہتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کو اپنے سرحدی علاقوں میں پناہ دے رہے ہیں۔

صدر غنی کے پاکستان کے تین دورے بشمول نومبر 2014 میں، دسمبر 2015 میں ہارٹ آف ایشیا وزارتی کانفرنس میں شرکت کے لیے اور جون 2019 میں دونوں ممالک کی باہمی بدگمانیوں کو دور کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہے۔

ادھر امریکہ نے افغانستان میں علاقے اور وہاں کے لوگوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر فوجی طاقت کا استعمال کیا۔ اس بے مقصد جنگ میں تقریباً دس کھرب ڈالر جھونکنے کے باوجود طالبان ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر قابض ہیں۔ امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس لانے کے اپنے انتخابی عہد کو پورا کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی اجازت دی لیکن حتمی معاہدے پر دستخط ہونے سے چند روز قبل ٹرمپ کی جانب سے یہ مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔ مذاکرات چند دن پہلے دوبارہ شروع کر دیے گئے ہیں لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا نتیجہ کیا برآمد ہو گا۔

امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار ایک بڑا چیلنج پیش کرتا ہے کیوں کہ ایک طرف تو ہم طالبان پر اپنے گہرے اثرورسوخ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتے اور دوسری طرف ہم امن کے اس عمل میں اپنی مرکزی اہمیت بھی کھونا نہیں چاہتے۔ مذاکرات کا دوبارہ جاری ہو جانا نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ افغانستان میں امن کی کوئی بھی کوشش علاقائی اور بین الاقوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو گی۔ امریکہ، پاکستان اور دیگر تمام ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ افغانستان پر تعاون کریں اور افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مل کر آمادہ کریں۔

ایران:

جس پہلو سے بھی دیکھا جائے، پاکستان ایران تعلقات میں کچھ کم چیلنج نہیں پائے جاتے۔ بظاہر خوشگوار تعلقات کی تہہ میں کچھ کھچاوٹیں بھی موجود ہیں۔ شاہ کے دور میں خلیج کے پولیس مین بننے کی خواہش سے لے کر ایرانی انقلاب سے جنم لینے والی فرقہ واریت اور پاکستان کے جوہری پروگرام جیسے  عوامل ھمارے تعلقات میں تناؤ کا سبب رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوطرفہ تعلقات ہمسایہ ممالک کے فطری مسائل کا شکار بھی ہیں۔

2016 میں ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ایران سے پاکستان آتے ہوئے گرفتاری کے واقعے نے ایران پاکستان تعلقات میں ایک نیا چیلنج پیش کیا۔ مارچ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ پاکستان میں فوج کے ترجمان نے جنرل راحیل شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات میں ہونے والی بات چیت کا متن ذرائع ابلاغ کے ساتھ شیئر کیا جس کے مطابق جنرل راحیل نے صدر روحانی سے کہا کہ وہ ہندوستان کو ایسی سرگرمیوں سے باز رہنے کی تاکید کریں۔ ایرانی صدر نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات اس  موضوع پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ اصل حقیقت سے قطع نظر، فوج کی طرف سے بیان بظاہر ایرانی صدر کو شرمندہ کرنے کی کوشش تھی۔ قیاس یہ ہے کہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ قریب تھی اور انہیں جدہ میں قائم اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی کی پیش کش ہو چکی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کے 2019 میں ایران کے دو دوروں کو دو طرفہ تعلقات میں ایک پیش رفت قرار دیا گیا  ہے لیکن بوجوہ عملی لحاظ سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ایران کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج امریکی عنصر ہے۔ ایران انقلاب کے بعد سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔ ان پابندیوں کی موجودگی میں پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سمیت کسی طرح کے بھی بامعنی معاشی تعلقات استوار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

سرحد پار عسکریت پسندوں کے حملوں نے دونوں ممالک کے لیے ایک اور سنگین چیلنج کھڑا کیا ہوا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر سرحد پار سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایرانی اہلکار ایرانی بلوچستان کے اندر ہر بڑے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں چھاپے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

افغانستان کے مخدوش حالات بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حالات نے دونوں فریقوں کو مخالف کیمپوں میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے مستقبل میں طالبان کی شمولیت کی حمائیت کرتا ہے لیکن ایران اس کو افغانستان میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی چال کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ایران اپنے مقاصد کے لیے افغانستان میں دونوں فریقوں کو مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔

پاک ایران تعلقات میں ایک بہت بڑا چیلنج فرقہ واریت ہے۔ ایران کے شیعہ انقلاب نے پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی۔ خلیج کی عرب ریاستوں مثلاً سعودی عرب سے پاکستان کی قربت نے فرقہ وارایت کو ہوا دی۔ پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ تشدد ایران پاکستان تعلقات میں ایک گمبھیر مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان دوسرے مسلم ممالک پر ہمیشہ سے دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی پراکسی فرقہ وارانہ جنگیں لڑنا بند کریں لیکن پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے ابھی تک اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ مشرقی وسطی کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے علاوہ فرقہ واریت داخلی طور پر بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلینج بنی ہوئی ہے۔

ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی چپقلش اور اس کے خطے پر منفی اثرات کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر میں دونوں مملک میں ثالثی کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تہران اور ریاض کے دورے بھی کیے لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ابھی حال ہی میں وزیر خارجہ کا سعودی عرب  کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے۔  

جنوبی ایشیا میں اپنی مرکزیت ، قدرتی وسائل کی کثرت اور متعدد علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی رکنیت کی وجہ سے پاکستان اور ایران علاقائی اور عالمی سیاست میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک اس سے فائدہ اٹھا کر مختلف چیلنجز سے نمٹنے کی باہم کوشش کر سکتے ہیں۔

کلام آخر

اس نسبتاً طویل مضمون کے اختتام پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو اپنے انتہائی اہم تعلقات میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے جو زیادہ تر پڑوسی ممالک کے ساتھ ہیں۔ اپنی طاقت کے بل بوتے پر امریکہ اپنے آپ کو ہر ملک کا عالمی ہمسایہ سمجھتا ہے۔ ملک کے اندرونی مسائل، کمزور معیشت، ناقص طرزِ حکمرانی، سالہا سال کی بدعنوانیوں اور نا اانصافی پر مبنی معاشی اور معاشرتی نظام کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے چیلینج اور بھی گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ ایک مضبوط قوم کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط معیشت اور متحد اور ہم آہنگ معاشرے کی ضرورت ہے جہاں قانون کا اطلاق بغیر کسی استثنیٰ کے ہو اور احتساب بلا لحاظ کیا جاتا ہو۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھرے تا کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہو سکے اور مندرجہ بالا چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کر سکے۔ موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ اپنی توانایاں اِدھر اُدھر کی فضول باتوں میں ضائع کرنے کی بجائے عوام سے کیے گئے وعدے پورا کرنے پر صرف کرے اور کابینہ میں موجود بدعنوان عناصر کو جیل میں ڈال کر صاف ستھرے کردار اور سوجھ بوجھ کے حامل لوگوں کو آگے لائے تا کہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی داخلی پالیسی کا ہی ایک جز ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان