امیروں کے ایمپوریم مال کے سامنے غریبوں کا جھگی سکول

’ پانچویں پاس‘ نامی پروگرام کے تحت لاہور کا ایک ادارہ سڑکوں پر روزی کمانے والے بچوں کو کم از کم پانچویں کلاس کا امتحان دلوانے کا عزم پورا کر رہا ہے۔

لاہور میں گو گرین ویلفئیر سوسائٹی جہاں ڈھیروں درخت لگانے میں مصروف ہیں، وہیں 2017 سے یہ سوسائٹی سڑکوں پر روزی کمانے والے بچوں کو کم ازکم پانچویں کلاس کا امتحان دلوانے کا عزم بھی پورا کر رہی ہے۔

’پانچویں پاس‘ نامی یہ پروگرام تین سال کا تیز رفتار پروگرام  ہے جس میں بچوں کو پلے گروپ سے شروع کروا کر پانچویں کے بورڈ کے امتحان کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اب تک اس پروجیکٹ کے ذریعے دو بیچ نکل چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر بچے سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 اس پروجیکٹ کی منتظم عاصمہ فرہاد یونیورسٹی لیکچرر ہوا کرتی تھیں مگر جب انہوں نے یہ تنظیم بنائی تو اپنی نوکری کو خیرباد کہا اور اپنی کچھ اور کولیگز کے ساتھ مل کر ’پانچویں پاس‘ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ان کے پانچ تعلیمی ادارے پنجاب میں چل رہے ہیں جن میں دو لاہور میں اور ایک ایک شاہدرہ، مریدکے اور تونسہ میں ہے۔

’پانچیوں پاس‘ ایک غیر رسمی تعلیمی پروگرام ہے جس میں عاصمہ اور ان کی ٹیم مقامی لوگوں کے ساتھ شراکت کرتی ہیں۔ اس کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ مقامی استاد ہی اپنے علاقے کے بچوں کو پڑھائیں۔ عاصمہ اوران کی ٹیم ان اساتذہ کو جدید تعلیمی ہنروں میں تربیت دیتی ہے جو ’ایکٹیویٹی بیسڈ‘ یعنی عملی ہوتی ہے اور مالی معاونت بھی کی جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عاصمہ نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ کام کیسے کرتا ہے: ’یہ لوکل پارٹنرشپنگ ہوتی ہے جس میں ہم استاد سے یہ امید کرتے ہیں کہ پڑھائیں گے بھی وہ اور جگہ بھی وہی مہیا کریں گے۔ بس ایک اڈا ہونا چاہیے جہاں پر بچوں کو معلوم ہو کہ انہیں روز آنا ہے۔ اگر ان کی نیٹ ورکنگ اچھی ہے تو بچوں کو لے کر آنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہم اپنی طرف سے ان اساتذہ کی تربیت کرتے ہیں اور ان کو جدید تعلیمی معیار سےبالکل اپ ٹو ڈیٹ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ان کی مالی معاونت بھی کرتے ہیں اور انہیں 500 روپے فی بچہ دیتے ہیں۔‘

اس پروجیکٹ کو کسی قسم کی کوئی ملکی یا غیر ملکی فنڈنگ نہیں ملتی بلکہ عاصمہ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم خود ہی پیسے جمع کر کے اسے چلا رہی ہے جبکہ  دوست احباب بھی جانتے ہیں کہ  وہ اس منصوبے پر بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ابھی ہمارے پانچ ویجوکیشنل سینٹرز میں 60 بچوں کی ایک وقت میں جگہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم 300 بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ڈیڑھ لاکھ روپے مہینے کا تو چاہیے ہی ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے بچے گود لے رکھے ہوئے ہیں۔ کسی نے 20 کسی نے 10 بچے گود لے رکھے ہیں، وہ اس حساب سے ہمیں ہر مہینے پیسے دے دیتے ہیں اور  ہم آگے اساتذہ میں بانٹ دیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا حالیہ تعلیمی ادارہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں قائم ایمپوریم مال کے بالکل سامنے والی خانہ بدوشوں کی بستی میں شروع ہوا ہے۔ یہاں ان کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس علاقے میں چونکہ ناخواندگی سو فیصد ہے تو ہمیں یہاں کوئی ایسا امیدوار نہیں ملا جس کے ساتھ ہم الحاق کرتے اور ان کو تدریسی تربیت دے سکتے، سو ہم نے اپنے ہی تنظیم سے ایک استاد کو یہاں رکھا ہے۔ ‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں پر ہم نے ایک ٹینٹ میں بچوں کو بٹھا کر پڑھانا شروع کیا ہے۔ ‘

عاصمہ کہتی ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ مسئلہ بچوں کے نظم و ضبط اور ان کی صفائی ستھرائی کا ہے۔ ’ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی کے لیے ہم نے یہاں حمام بنایا ہے تاکہ بچے آئیں تو صبح ہم یہاں آتے ہی ان کے کم ازکم ہاتھ منہ دھلوا دیں۔‘

عاصمہ کہتی ہیں کہ ان جگہوں میں یہ منصوبہ شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ ’ یہاں جب ہم آئے تو ان لوگوں کی غربت اورناخواندگی دیکھ کر ہمیں یہ تو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ مشکل چیلنج ہے مگر ہم اس کے لیے تیار ہیں اور اب ہم یہاں متحرک ہیں۔ بچے یہاں قرآن پاک کی کلاسیں بھی لے رہے ہیں، ایکٹیویٹی بیسڈ لرننگ بھی کرتے ہیں اور انہیں کھانا بھی دیا جاتا ہے۔‘

یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ تر آپ کو ننگے پاؤں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آئیں گے۔ ان کا یہ سکول صبح چھ بجے سے نو بجے تک لگتا ہے کیونکہ اس کے بعد ان میں سے بیشتر بچے اپنے اپنے کام پر نکل جاتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اشاروں پر کھڑی گاڑیوں پر وائپر یا کپڑا مارتے ہیں یا پھر ایمپوریم مال کے باہر جا کر بھیک مانگتے ہیں۔  مگر ان سے بات کر کے معلوم ہوا کہ یہ پڑھنا چاہتے ہیں، کسی کی خواہش ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے، کوئی استانی اور کوئی استاد بننا چاہتا ہے۔

عاصمہ نے بتایا کہ ان  بچوں نے کچھ عرصہ پہلے ان سے اپنی ایک دلی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ یہ ایمپوریم مال کے اندر جانا چاہتے ہیں مگر جب بھی  اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں وہاں سے ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور گالیاں بھی سننا پڑتی ہیں ۔

 عاصمہ نے بتایا: ’ہم نے سوچا کہ اس خواہش کو ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے بعد ہم نے ان میں تہذیب، سکول آنے میں وقت کی پابندی وغیرہ دیکھی ہے۔ لیکن اب یہ بچے اس معاملے پر بہت زیادہ سنجیدہ ہو گئے ہیں، یہ ہر بات ایمپوریم مال کے ذکر پر مان جاتے ہیں۔ اب ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں مال کے اندر ایک مرتبہ ضرور لے کر جائیں لیکن اس سے پہلے ہم ان کی پوری تربیت کرنا چاہ رہے ہیں جس میں صفائی ستھرائی، تمیز اور ذاتی فاصلہ برقرار رکھنا، قطار میں چلنا، دھکم پیل نہ کرنا، مانگنا نہیں وغیرہ شامل ہیں۔‘

عاصمہ فرہاد کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی ترویج ہونی چاہیے کیونکہ یہاں خواندگی کی شرح اب بھی 52 فیصد سے زیادہ نہیں ہے جو کہ تشویش ناک ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان سب سے زیادہ ان پڑھ اور بغیر کسی ہنر والے انسان پیدا کررہا ہے۔

 عاصمہ فرہاد اور ان کی ٹیم کی کوشش ہے کہ  آگے جا کر یہ ان بچوں کو ووکیشنل ٹریننگ سکلز کی طرف بھی لے کر آئیں۔ مگر ان کے خیال میں  یہ یقیناً ایک لمبا راستہ ہے۔                                

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا