آج بھی عورتیں کھیلوں کے میدان میں پیچھے کیوں دھکیلی جاتی ہیں؟

مانچسٹر میں کھیلوں کے میدان پچاس برس تک عورتوں کے لیے بند رہے

خاتون مصنف اپنے والد کے ساتھ 

پچھلے اتوار جب مانچسٹر میں آرسینل فٹبال کلب نے گنرز کو تین ایک سے ہرایا تو میں وہیں اتحاد سٹیڈیم میں موجود تھی۔

پریمیئر لیگ کا کوئی میچ دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا اور اس شہر میں بھی یہ میرا پہلا ہی پڑاؤ تھا۔ وہ شہر جہاں پروفیشنل فٹبال نے جنم لیا تھا۔

عین اسی دن میرے اپنے ملک امریکہ میں بھی عالمی پروفیشنل فٹبال چیمپئن شپ منعقد ہو رہی تھی۔ (مجھے اس چیز سے اتفاق ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے محدود علاقے میں کھیلے جانے والے کھیلوں کو عالمی مقابلوں کا نام دیتے ہیں اور ہمارے فاتح بھی خود کو ورلڈ چیمپئن کہلاتے ہیں)۔

میرے اس سفر میں پہلی بار ہونے والے اتفاقات بہت زیادہ ہو رہے تھے۔ میں امریکہ سے باہر پہلی مرتبہ کوئی میچ دیکھ رہی تھی، میں مانچسٹر پہلی مرتبہ آئی تھی اور پریس گیلری میں بیٹھنے کا بھی یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا تعلق ہمیشہ تعلیم کے شعبے سے رہا ہے۔

مانچسٹر آنا میرے لیے بہت زیادہ اہم اور دلچسپ تھا۔ یہ شہر تاریخی لحاظ سے انسانیت کے لیے بہت زیادہ سودمند رہا ہے کیوں کہ یہ دنیا کا پہلا صنعتی شہر تھا اور یہیں دنیا کا پہلا ریلوے سٹیشن بھی قائم ہوا۔

میں نے ایک ٹرین لی اور میں لندن سے یہاں آ گئی۔ یہاں جب میں صبح صبح ورزش کے لیے نکلی تو ایک ریلوے پل کے نیچے میں نے چند مردوں کو نشے کے انجکشن لگاتے ہوئے بھی دیکھا۔

میں پیدائشی طور پر فٹبال کی بہت شوقین ہوں اور یہ سفر میرے لیے ایسے ہی تھا جیسے کسی مقدس مقام کی یاترا کو جا رہی ہوں۔

امریکہ میں فٹبال کو ساکر کہتے ہیں اور یہاں اسے زیادہ تر لڑکیاں کھیلتی ہیں اور شاید وہ لڑکوں سے زیادہ ہی کھیلتی ہوں۔ مجھے یاد ہے میں نے جب سے چلنا شروع کیا تھا تو ساکر کھیلنا بھی شروع کردیا تھا۔ اس کھیل کے دوران پیدا ہونے والی سنسنی کا انوکھا احساس میرے دماغ میں ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔

اپنے کالج کے دنوں میں بھی میں فٹبال کو بہت زیادہ پسند کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مشی گن سٹیڈیم میں جہاں ایک لاکھ سات ہزار لوگوں کی گنجائش ہوتی ہے، ہم لوگوں کی تعداد ایک لاکھ 15 ہزار سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔

کئی برس تک میں نے اپنے ملک میں ہونے والی ہر مقابلے کو دیکھا۔ ہمارے گھر میں کسی بھی کھیل کو ٹی وی پر دیکھنے سے پہلے تمام انتظامات اور روایات کی پاسداری میں اپنے والد کے ساتھ مل کر کیا کرتی تھی۔

میرے والد بھی فٹبال کے بہت بڑے مداح ہیں اور اب بھی ولورین کے میچ دیکھنے ضرور جایا کرتے ہیں۔ اس زمانے میں ہم لوگ وقت سے پہلے میدان میں پہنچ جاتے تھے تاکہ ٹیموں کو وارم اپ کرتے دیکھ سکیں، کمنٹری کرنے والے کی ریہرسل سن سکیں اور جب ہماری ٹیم میدان میں آئے تو ہم اسے ہلہ شیری دے سکیں۔ یہاں تک کہ جب کھیل کے میدان میں قومی ترانہ بجایا جاتا اور قومی پرچم بلند کرنے کی تقریب ہوتی تو ہم اس میں بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوا کرتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1990 کے آس پاس میں جس میدان میں بیٹھا کرتی تھی وہیں میرے پاس ٹام بروڈی بھی بیٹھا کرتا تھا۔ وہ ٹام بروڈی نہیں جسے آپ اب ایک مشہور کھلاڑی کے طور پرجانتے ہیں۔ اس وقت ٹام بروڈی اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں میں دوسری بلکہ بعض اوقات تیسری چوائس کی صورت میں میدان سے باہر موجود ہوتا تھا۔

اگر برطانوی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خاندانوں اور ان کی برادریوں کی وابستگی اپنے فٹ بال کلب کے ساتھ امریکیوں سے زیادہ ہے تو وہ لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہماری وابستگی اور ہمارے جذبات اپنی فٹ بال ٹیموں کے لیے ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں۔ یہ جذبات برطانویوں کی طرح کسی کلب کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ ہم لوگ کالج لیول پر جو فٹبال کے میچ کرواتے ہیں (جیسے انگلینڈ میں فٹ بال کلب منعقد کرواتا ہے) تو ہماری وابستگیاں ان فٹ بال ٹیموں کے ساتھ ہوتی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری دشمنیاں بھی اتنی ہی پرانی ہوتی ہیں۔ جیسےمشی گن فٹ بال ٹیم کے قدیمی دشمن اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی والے ہیں۔ میری ماں نے وہاں سے گریجویشن کی ہے اور وہ اس کی سخت مداح ہیں۔ ان سے میں نے سیکھا کہ خواتین بھی اس کھیل کے ساتھ شدید دلی وابستگی رکھ سکتی ہیں۔

عورتیں فٹ بال کھیلتی ہیں، عورتیں فٹ بال کے میچ دیکھتی ہیں، ان کی وابستگی اس کھیل سے بہت پرانی ہے اور اتنی ہی سنجیدہ طریقے سے ہے جیسے کہ مرد اس کھیل کو پسند کرتے ہیں۔

 لیکن مانچسٹر میں مجھے ایک اور اتفاق بھی ہوا۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا کہ میں نے کسی مخصوص مردانہ ماحول کی جگہ پر کام شروع کیا۔ میں برطانیہ جیسے ملک کے لیے یہ بات پوری سنجیدگی سے کر رہی ہوں۔ وہ جگہ واقعی صرف مردوں کے لیے مخصوص تھی۔ واحد خاتون جو میں نے اس جگہ پہ دیکھی وہ کینٹین سے کھانا پہنچانے والی لڑکی تھی یا پھر وہ خاتون تھیں جو آرسینل اور دوسری ٹیموں کے لیے سوشل میڈیا کے معاملات دیکھ رہی تھیں۔ جی ہاں یہ مانچسٹر کے اس فٹ بال گراؤنڈ کی پریس گیلری کا ذکر ہے۔

مانچسٹر کی پریمیئر لیگ کے مینیجر پیپ گارجیولامجھے دیکھ کر اس قدر حیران ہوئے کہ اس لمحے ان کی وہ شکل کا وہ تاثر میرے لیے بہت زیادہ انوکھا تھا۔ پریس گیلری میں ایک عورت کا پایا جانا ان کے لیے بہت زیادہ حیران کن تھا۔

میں ساری بات اس لیے سمجھ گئی کیونکہ میں تاریخ دان ہوں۔آپ اس لیے حیران تھے کیوں کہ یہ آپ کا مردانہ کھیل ہے۔ امریکہ میں بھی تاریخی طور پر ہمارے یہاں مردانہ کہلائے جانے والے کھیل پائے جاتے ہیں اور پوری امریکی قوم بہت دیوانگی کے ساتھ ان میں مبتلا ہوتی ہے۔

 بیس بال اور امریکی فٹبال وہ دونوں کھیل ہیں جنہیں شدید طور پہ امریکی مردانہ کھیل کہا جاسکتا ہے۔ تو میں اس صورتحال کو اچھے طریقے سے سمجھ رہی تھی کہ میں کیوں کر اس وقت ایک مردانہ علاقے میں تھی۔

اگرچہ انگلینڈ اور امریکہ دونوں ملکوں نے کوشش کی ہے کہ ان کھیلوں میں صنفی تفریق کو ختم کیا جا سکے لیکن فی الحال ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ایسا ہونے میں ابھی شاید بہت وقت لگ جائے۔

ہفتے کو اس میچ کے بارے میں جتنی تفصیلات بتائی گئی تھی اور اس کے اشتہاروں کے درمیان جس طرح صنفی تفریق کو کم سے کم ہوتے دکھانے کی کوشش کی گئی تھی، اتوار کو ہونے والا میچ ان سب چیزوں سے کوسوں دور تھا۔

اب میں آپ کو اصل بات بتاتی ہوں۔ میں برطانیہ میں ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں عورتوں کو جانتی ہوں جو فٹبال کھیلتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں۔جنہوں نے اپنی لوکل ٹیمز کے لیے نعرے بازی بھی کی ہے۔ وہ کھیل کو اتنی ہی باریکی سے جانتی ہیں جتنی باریکی سے کوئی مرد ان کھیلوں کو جان سکتا ہے۔ وہ لکھتی بھی اچھا ہیں۔ ان کی حس مزاح خاصی تیز ہے اور ان میں وہ تمام ضروری صلاحیت بھی موجود ہے جو کسی کھیل کا تجزیہ کرنے کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے۔ تو پھر اتوار کے دن پریس گیلری میں ان میں سے کسی ایک خاتون بھی وہاں کیوں موجود نہیں تھی؟ پیپ مجھے دیکھ کر اتنا حیران کیوں ہوئے؟

یہ تفریق ایک دم  پیدا نہیں ہو جاتی، اس کے پیچھے ایک طویل کشمکش موجود ہوتی ہے۔ یہ فیصلوں کی ایک طویل قطار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے ہماری تہذیب اور ثقافت میں موجود صدیوں پرانے رویوں کا عکس جھلک رہا ہوتا ہے۔

اگر غور کریں تو سارے جدید کھیل مردانہ برتری والے رویے کے حامل ہیں اور ظاہر ہے یہ سب کچھ بھی مردوں کا ہی فیصلہ ہے۔

میں ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں کھیلوں کی تاریخ پڑھاتی ہوں۔ اس سیمسٹر میں بیس بال کی تاریخ سے متعلق کورس میں پڑھا رہی ہوں۔ بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیس بال نے امریکی تاریخ پر جو اثرات مرتب کیے ان کے بارے میں پڑھانا میری ذمہ داری ہو گی۔

حیران کن طور پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بیس بال کھیل کا گورے لوگوں کی برتری قائم رکھنے میں تاریخی طور پر بہت زیادہ اہم کردار رہا ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی،  ہر طرح سے برتر رہنے کے لیے امریکہ اور دوسرے سفید فام ممالک میں بیس بال کا استعمال کیا گیا ہے۔

سیاہ فام لوگ بھی ایک طویل عرصے سے اس کھیل کو پسند کرتے آئے ہیں لیکن انہیں زبردستی گورے لوگوں نے اس کھیل سے باہر نکالا۔ افریقی نسل کے تمام مرد و خواتین جو بیس بال کھیلتے اور اسے ایک طویل عرصے سے پسند کرتے ہیں اب انہوں نے اپنے کلب اور اپنی ٹیمیں بنائی ہوئی ہیں تاکہ وہ اپنے طور پر اسے کھیل سکیں۔

انگلینڈ میں 1921سے 1971 تک پورے 50 سال فٹ بال ایسوسی ایشن نے گراؤنڈ میں خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ فٹبال خواتین کے لیے بالکل مناسب کھیل نہیں ہے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب خواتین میں اپنے حقوق کے حوالے سے آگہی بڑھ رہی تھی۔ وہ رائے شماری میں اپنا حصہ طلب کر رہی تھیں، عوامی جگہوں پر اپنی موجودگی کو موثر بنا رہی تھیں اور گھروں یا دفتروں میں اپنے حقوق کے لیے مردانہ وار لڑ رہی تھیں۔

اپنے سفر کے دوران میں نے یہ بات بہت اچھی طرح سیکھی کہ کھیلوں کی اہمیت کسی بھی سماج کو بدلنے کے لیے بہت زیادہ ہوتی ہے۔کھیل لوگوں سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ ان سارے کھیلوں میں لوگوں کے دماغ، ان کی صلاحیتیں اور ان کے رویے شامل ہوتے ہیں۔ کھیل وہ چیز ہے جو ہم سب کو برابر ہونا سکھاتی ہے۔

کھیل ہمیں طاقت دیتا ہے۔ یہ ہمیں قوت دیتا ہے، کھیل خوشی اور غمی کے موقع پر ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور کھیل ہمارے اندر انسانیت کوبھی جنم دیتا ہے۔

اس پوری کائنات میں کوئی بھی مقام ہو، خواتین کھلاڑیوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کھیل اور سیاست ہمیشہ آپس میں گڈ مڈ رہیں گے۔ خواتین کو ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے بہت زیادہ لڑنا پڑتا ہے۔ انہیں کھیل کے میدانوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بھی بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ خواتین کھلاڑیوں کے بارے میں لکھنے کے لیے بھی بہت زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ان سب کو میڈیا کے سامنے لانے میں بھی بہت دقت ہوتی ہے کہ جو عورتیں کوئی بھی کھیل کھیلتی ہیں، جو کسی کھیل میں کوچ ہوتی ہیں یا پھر جو کمنٹری کرنے کے لیے کمنٹری باکس میں موجود ہوتی ہیں۔

کھیلنے کے لیے ہم عورتیں اسی طرح لڑتی رہیں گی، کھیل کے میدانوں میں بھی اور کھیل کے میدانوں سے باہر بھی۔ یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ